• AA+ A++

یہ بڑی متبرک راتوں میں سے ہے کیونکہ یہ رسولؐ اللہ کے مبعث (مامور بہ تبلیغ ہونے) کی رات ہے اور اس میں چند ایک اعمال ہیں:

مصباح میں شیخ نے امام ابو جعفر جواد ؑسے نقل کیا ہے کہ فرمایا: ماہ رجب میں ایک رات ہے کہ وہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج چمکتا ہے اور وہ ستائیسویں رجب کی رات ہے کہ جس کی صبح رسول اعظم ؐمبعوث بہ رسالت ہوئے۔ ہمارے پیروکاروں میں جو اس رات عمل کرے گا تو اس کو ساٹھ سال کے عمل کا ثواب حاصل ہوگا۔ میں نے عرض کیا اس رات کا عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: نماز عشاء کے بعد سوجائے اور پھر آدھی رات سے پہلے اٹھ کر بارہ رکعت نماز دو دو رکعت کرکے پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد قرآن کی آخری مفصل سورتوں (سورہ محمد ؐسے سورہ ناس) میں سے کوئی ایک سورہ پڑھے۔ نماز کا سلام دینے کے بعد سورہ حمد، سورہ فلق سورہ ناس، سورہ توحید، سورہ کافرون اور سورہ قدر میں سے ہر ایک سات سات مرتبہ نیز آیۃ الکرسی بھی سات مرتبہ پڑھے اور ان سب کو پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے:

الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَداً، وَ لَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ، وَ لَمْ یَکُنْ لَہُ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرْہُ تَکْبِیراً

حمد ہے اس خدا کیلئے جس نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا اور نہ کوئی اس کی حکومت میں اس کا شریک ہے نہ وہ کمزور ہے کہ کوئی اس کا حامی ہو اور تم اس کی بڑائی خوب بیان کرو

اَللّٰھُمَّ إنِّی أَسْأَلُک بِمَعاقِدِ عِزِّکَ عَلٰی أَرْکانِ عَرْشِکَ وَ مُنْتَھَی الرَّحْمَةِ مِنْ کِتابِکَ، وَبِاسْمِکَ الْاَعْظَمِ الْاَعْظَمِ الْاَعْظَمِ،

اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے عرش پر تیرے مقامات عزت کے واسطے سے اور اس انتہائی رحمت کے واسطے سے جو تیرے قرآن میں ہے اور بواسطہ تیرے نام کے جو بہت بڑا، بہت بڑا، بہت ہی بڑا ہے

وَذِکْرِکَ الْاَعْلَی الْاَعْلَی الْاَعْلی، وَبِکَلِماتِکَ التَّامَّاتِ أَنْ تُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَ أَنْ تَفْعَلَ بِی مَا أَنْتَ أَھْلُہُ۔

بواسطہ تیرے ذکر کے جو بلند تر، بلندتر اور بہت بلندتر ہے اور بواسطہ تیرے کامل کلمات کے سوالی ہوں کہ تو حضرت محمدؐ اور ان کی آل ؑپر رحمت فرما اور مجھ سے وہ سلوک فرما جو تیرے شایان شان ہے۔

اس کے بعد جو دعا چاہے پڑھے۔ نیز اس رات میں غسل کرنا مستحب ہے اور اس شب میں پندرہ رجب کی رات میں پڑھی جانے والی نماز بھی بجا لانی چاہیئے۔

واضح ہو کہ مشہور اہل سنت عالم ابو عبداللہ محمد ابن بطوطہ نے چھ سو سال قبل مکہ معظمہ و نجف اشرف کا سفر کیا اور امیرالمومنین ؑ کے روضہ پر حاضری دی، انہوں نے اپنے سفر نامہ(رحلہ ابن بطوطہ) میں مکہ سے نجف اشرف میں داخل ہونے کے بعد جوار امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب ؑ کے روضہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ اس شہر کے رہنے والے سب کے سب رافضی ہیں اور اس روضہ سے بہت سی کرامات ظہور میں آتی ہیں۔ یہ لوگ لیلۃ المحیا (جاگنے کی رات) کہ جو ستائیسویں رجب کی شب ہے۔ اس میں کوفہ، بصرہ، خراسان اور بلاد فارس و روم وغیرہ سے ہر بیمار،مفلوج، شل شدہ اور زمین گیرکو یہاں لاتے ہیں کہ جن کی تعداد عموماً تیس چالیس تک ہوتی ہے وہ لوگ نماز عشاء کے بعد ان اپاہجوں کو امیرالمومنین ؑ کی ضریح مبارک پر لے جاتے ہیں جہاں بہت سے لوگ ان کے اردگرد جمع ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے بعض نماز، تلاوت اور ذکر میں مشغول رہتے ہیں اور بعض صرف ان بیمار لوگوں کو ہی دیکھتے رہتے ہیں کہ کب وہ تندرست ہوکر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ جب آدھی یا دوتہائی رات گزر جاتی ہے تو جو مفلوج و زمین گیر حرکت ہی نہ کرسکتے تھے وہ اس حالت میں اٹھتے ہیں کہ انہیں کوئی بیماری نہیں ہوتی اور کلمہ طیبہ لاَاِلَہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدُ، رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیُّ، وَلِیُّ، اللہِ پڑھتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوجاتے ہیں۔ یہ مشہور و مسلمہ کرامت ہے اگرچہ اس رات میں خود وہاں موجود نہ تھا، لیکن قابل اعتماد اور نیکوکار لوگوں کی زبانی مجھ تک پہنچی ہے تاہم میں نے امیرالمومنینؑ کے روضہ اقدس کے قریب واقع مدرسہ میں تین آدمی دیکھے جو اپاہج زمین پر پڑے تھے ان میں سے ایک اصفہان کا دوسرا خراسان کا اور تیسرا اہل روم سے تھا، میں نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ تندرست کیوں نہیں ہوئے؟ وہ کہنے لگے کہ ہم ستائیس رجب کو یہاں پہنچ نہیں سکے۔ لہذا ہم آئندہ ستائیس رجب تک یہیں رہیں گے تا کہ ہمیں شفا حاصل ہو اور پھر ہم واپس جائیں۔ آخر میں ابن بطوطہ کہتے ہیں کہ اس رات دوردراز شہروں کے لوگ زیارت کے لیے اس روضہ اقدس پر جمع ہوجاتے ہیں اور یہاں بہت بڑا بازار لگتا ہے جو دس دن تک جما رہتا ہے۔

مؤلف کہتے ہیں کہ لوگ اس واقعہ کو بعید نہ سمجھیں کیونکہ ان مشاہد مشرفہ سے اتنی کرامات ظاہر ہوئی ہیں جن کا شمار نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ماہ شوال 1343 ھ میں امت عاصی کے ضامن امام ثامن یعنی ابوالحسن امام علی رضا ؑ کے مشہد اطہر میں تین مفلوج و زمین گیر عورتیں لائی گئیں۔ جن کے علاج سے طبیب و معالج عاجز آگئے تھے۔ ان کو وہاں سے شفا ملی اور وہ تندرست ہوکر اس حرم سے واپس گئیں اس مشہد مبارک کے معجزات و کرامات ایسے واضح و آشکار ہیں، جیسے آسمان پر سورج کا چمکنا اور بدوؤں کیلئے حرم نجف کے دروازے کا کھلنا ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ ان عورتوں کا واقعہ ایسا ظاہر وباہر تھا کہ جو معالج ان کے کامیاب نہ ہوسکے تھے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ہمارا خیال یہی تھا کہ یہ عورتیں صحت یاب نہیں ہوسکتیں، لیکن انہیں حرم مطہر سے شفا مل گئی ہے، پھر انہوں نے باقاعدہ تحریری تصدیق نامہ بھی لکھ کر دیا اور اگر اختصار مدنظر نہ ہوتا تو ایسے بہت سے واقعات کا ذکر کیا جاسکتا تھا، ہمارے بزرگ شیخ حر عاملی نے اپنے قصیدہ میں کیا خوب فرمایا ہے

وَما بَدا مِنْ بَرَکاتِ مَشْھَدِہ، فِی کُلِّ یَوْمٍ أَمْسُہُ مِثْلُ غَدِہ

جو برکتیں ان کی درگاہ سے ظاہر ہوئیں

آج کی طرح کل بھی عیاں ہوں گی

وَکَشِفا الْعَمی وَالْمَرضی بِہِ، إجابَۃُ الدُّعاءِ فِی أَعْتابِہِ

یعنی بیماری و نابینا پن دور ہوتا ہے

ان کی درگاہ پر دعائیں قبول ہوتی ہیں

?