جب پیغمبر اکرمؐ اور معصومینؑ سے منقول روایات میں غور فکر کی جائے تو پھر زیارت کی اہمیت و فضیلت بھی واضح ہو جاتی ہے اور اس بحث کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے آیا انبیا، آئمہ اور اولیاء خدا کی مزارات کی زیارت کرنا ان کی بار گاہ میں سلام عرض کرنا اور انہیں ان کی وفات اور شہادت کے بعد بارگاہ الٰہی میں وسیلہ اور شفیع قرار دینا جائز ہے یا نہ چونکہ یہ حضرات قرآن مجید کی اس آیہ مجیدہ کے مصداق اعلیٰ و اکمل ہیں جس میں ارشاد ہوتا ہے :
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
جو حضرات راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مہمان ہیں۔
(آل عمران آیة ١٦٩)
قَالَ الْحُسَيْنُ لِرَسُولِ اللَّهِ يَا أَبَتَاهْ مَا لِمَنْ زَارَكَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ : يَا بُنَيَّ مَنْ زَارَنِي حَيّاً أَوْ مَيِّتاً أَوْ زَارَ أَبَاكَ أَوْ زَارَ أَخَاكَ أَوْ زَارَكَ كَانَ حَقّاً عَلَيَّ أَنْ أَزُورَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ أُخَلِّصَهُ مِنْ ذُنُوبِه
امام حسین علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے پوچھا جس نے آپ کی زیارت کی اس کا کیا اجر ہے؟رسول اللہؐ نے فرمایا:اے میرے بیٹے جس نے میری زندگی یا زندگی کے بعد زیارت کی یا تیرے بابا یا تیرے بھائی یا تیری زیارت کی تو اس کا میری گردن پر حق ہے کہ روز قیامت اس کی زیارت کروں اور اس کو گناہوں سے چھٹکارا دلاوں۔
(الکافی،ج۴،ص۵۴۸)
قال الصادق علیہ السلام مَنْ زَارَنَا فِي مَمَاتِنَا فَكَأَنَّمَا زَارَنَا فِي مَحْيَانَا وَ مَنْ جَاهَدَ عَدُوَّنَا فَكَأَنَّمَا جَاهَدَ مَعَنَا وَ مَنْ تَوَلَّى مُحِبَّنَا فَكَأَنَّمَا أَحَبَّنَا وَ مَنْ سَرَّ مُؤْمِناً فَقَدْ سَرَّنَا وَ مَنْ أَعَانَ فَقِيرَنَا كَانَتْ مُكَافَاتُهُ عَلَى جَدِّنَا مُحَمَّدٍ رَسُولِ الله
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: جو شخص ہماری وفات کے بعد ہماری زیارت کرے تو گویااس نے ہماری زندگی میں ہماری زیارت کی ہے جس نے ہمارے دشمن سے جھاد کیا گویا کہ اس نے ہمارے رقاب میں جھاد کیا جس نے ہمارے محب سے محبت رکھی گویا کہ اس نے ہمارے ساتھ محبت رکھی، جس نے مومن کو خوش کیا گویا کہ اس نے ہمیں خوش کیا جس نے مومن فقیر کی مدد کی اس کا اجر ہمارے جد رسول اللہ ص پر ہے۔
(کتاب المزار للمفید،ص۳۰۱)
قال رسولُ اللہِ صلی اللہُ علیہ والہ وسلم: وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ فِیْ شَیئٍ مِنْ الْاَرْضِ بَلَغَتْنِی وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ عَنْدَ الْقَبْرِ سَمِعْتُہ
رسول اللہؐ فرماتے ہیں: جو شخص زمین کے کسی بھی حصے سے مجھ پر سلام بھیجتا ہے اس کا سلام مجھ تک پہنچ جاتا ہے اور جو شخص میری قبر کے پاس آکر مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اس کا سلام بھی میں سنتا ہوں۔
(امالی للطوسی،ص۱۶۷)
مذکورہ آیت و روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ ، وآئمہ معصومینؑ جس طرح اپنی حیات و زندگی میں خالق اور مخلوق کے درمیان رابط اور وسیلہ ہیں اس طرح اپنی شہادت اور وفات کے بعد بھی ہمارا سلام ہماری زیارت ہماری دعائیں سنتے ہیں اور بار گاہ خدا میں ہماری شفاعت فرماتے ہیں۔
قال الامام صادق علیہ السلام : مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلیٰ زِيَارَتِنَا فَلیَزِرْ صَالِحِیْ مَوَالِینَا يَکْتُبُ لَہ ثَوَابُ زِيَارَتِنَا
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: جو شخص ہماری زیارت پر قدرت و طاقت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ وہ ہمارے نیک و صالح موالی اور دوستوں کی زیارت کرے اس کے لئے (خدا کی طرف سے) ہماری زیارت کا ثواب لکھا جائے گا۔
( کامل الزیارات،ص۳۱۹)
قال الامام علی علیہ السلام : زُوْرُوا مَوْتَاکُمْ فَاِنَّھُمْ يَفْرَحُوْنَ بِزِيَارَتِکُمْ وَلْيَطْلُبُ الْرَجُلُ حَاجَتَہ عَنْدَ قَبْرِ أَبِيْہِ وَاُمِّہِ بَعْدَ مَا يَدْعُوا لَھُمَا
امام علیؑ فرماتے ہیں: اپنے مردوں کی (قبر پر جا کر )زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہاری زیارت سے خوش ہوتے ہیں انسان کو چاہیے کہ جب اپنے ماں باپ کی قبر پر جائے تو پہلے ان کے لئے دعائے خیر کرے اس کے بعد اپنی حاجت خدا سے طلب کرے جب نیک اور صالح لوگوں کی زیارت کا اتنا ثواب ہے اور انسان اپنے ماں باپ کی قبر پر جاکر خدا سے اپنی حاجات طلب کر سکتا ہے تو پھر انبیا ء آئمہ معصومینؑ اور اولیاء خدا کی قبور اور روضہ بارگاہ مطہر کی زیارت وسلام دعا ومناجات اور ان کو اپنی حاجات و مشکالات اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے بارگاہ خدا میں وسیلہ اور شفیع قرار دینے میں کسی مسلمان کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے۔
( الکافی،ج۳،ص۳۲۰)
خدا فرماتا ہے:
يَا اَيُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوا اِتَّقُوا اللہِ وَابْتَغُوا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ
(سورہ المائدہ آیت ۳۵)
پیغمبرؐ اور اہل بیتؑ سے افضل اور برتر پیش خدا کونسا وسیلہ ہے۔
حضرت علیؑ فرماتے ہیں ہم خدا اور مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں۔
حضرت فاطمہ زہراؑ فرماتی ہیں ہم (اہل بیتؑ پیغمبر) خلق و خالق کے درمیان رابط ہیں ۔
نہ فقط بزرگ ہستیوں کو وسیلہ قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ بعض مقدس و مبارک اوقات اور مقامات کو بھی وسیلہ قرار دیا گیا ہے
حضرت امام سجادؑ خدا کو ماہ مبارک رمضان کا واسطہ دیتے ہیں۔ (صحیفہ سجادیہ دعای ٤٤)
امام حسینؑ خدا کو شب روز عرفہ کی قسم دیتے ہیں۔
قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق :
فَلَمَّا اَنْ جَاءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰہُ عَلیٰ وَجْھِہ فَارْتَدَّ بَصيْراً (یوسف آیة ٩٦)
جب حضرت یوسفؑ کا قمیص حضرت یعقوبؑ کی آنکھوں کے ساتھ میں ہوتا ہے تو ان کی آنکھوں کی بینائی واپس لوٹ آئی کپڑا خود کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا لیکن چونکہ حضرت یوسفؑ جیسے نبی کے بدن سے متصل رہا ہے اس میں خدا نے یہ اثر عطا فرمایا ہے۔
امام ہادیؑ جب بیمار ہوتے ہیں تو ایک شخص کو کربلا روانہ کرتے ہیں کہ جا کر قبر مطہر امام حسینؑ پر میرے لئے دعا کرو۔
جب اس شخص نے تعجب سے سوال کیا مولا آ پ معصوم ہیں میں غیر معصوم ہوں آپ کیلئے جا کر میں دعا کروں امام نے جواب دیا رسول اکرمؐ خانہ کعبہ اور حجر الاسود سے افضل تھے لیکن خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے۔ خدا نے کچھ ایسے مقامات قرار دیے ہیں جہاں خدا چاہتا ہےکہ وہاں جا کر دعا مانگی جائے اور میں دعا قبول کروں گا خانہ کعبہ اور حرم امام حسینؑ بھی انہیں مقامات مقدسہ میں سے ہیں۔
اگر ہم ضریح یا ضریح مطہر کے دروازوں کو بوسہ دیتے ہیں اور چومتے ہیں تو فقط و فقط پیغمبر یا اس معصوم کے احترام کی وجہ سے کیوں کہ اب یہ ضریح و بارگاہ اور یہ در و دیوار اسی معصوم کی وجہ سے مقدس اور با برکت ہو گئے ہیں جس طرح قرآن مجید کی جلد یا کاغذ قرآن کی وجہ سے مقدس ہو گئے ہیں چو نکہ اگر یہی کاغذ اور جلد کسی اور کاپی یاکتاب پر ہوں تو مقدس نہیں ہے ۔
اولیاء خدا پر سلام و درود : خدا نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں اپنے انبیاء اور اولیاء پر دروود بھیجتا ہے۔
(۱) سَلاَم عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعَالَمِیْنَ (٢) سَلاَم عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ (٣)سَلاَم عَلٰی مُوسٰی وَھٰرُوْنَ (٤) وَسَلاَم عَلٰی الْمُرَسَلِیْنَ (٥) سَلاَم عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیّاً۔ (صافات آیة ٧٩،١٠٩،١٢٠،١٨١)
(١) نوح پر دونوں جہانوں میں سلام ہو(٢) ابراہیم پر سلام ہو (٣) موسیٰ وہارون پر سلام ہو(٤) رسولوں پر سلام ہو(٥) سلام ہو اس پر ولادت کے وقت، موت کے وقت اور جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔
ہم بھی قرآن مجید کی پیروی کرتے ہوئے رسول اکرمؐ و آئمہؑ کی زیارت کرتے ہیں اور ان پر سلام و درود بھیجتے ہیں۔