جب نماز کا ارادہ کرے تو کہے:
اَللَّھُمَّ إنِّی ٲُقَدِّمُ إلَیْک مُحَمَّداً صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ بَیْنَ یَدَیْ حاجَتِی وَ أَتَوَجَّہُ بِہِ إلَیْکَ
اے معبود! میں اپنی حاجات بیان کرنے سے پہلے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیرے حضور پیش کرتاہوں اور ان کے ذریعے حاضر ہوتا ہوں
فَاجْعَلْنِی بِہِ وَجِْیھاً عِنْدَکَ فِی الدُّنْیا وَالاَْخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِینَ وَاجْعَلْ صَلاتِی بِہِ مَقْبُولَةً وَ ذَنْبِی بِہِ مَغْفُوراً وَ دُعائِی بِہِ مُسْتَجاباً إنَّکَ أَنْت الْغَفُورُ الرَّحِیمُ۔
پس ان کے واسطے مجھے اپنے حضور دنیا و آخرت میں باعزت اور مقربوں میں قرار دیاور ان کے وسیلے میری نماز کو قبول فرما ان کے واسطے میرے گناہ بخش دے ان کی خاطر میری دعا قبول کرلے بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے.
اذان واقامت کے درمیان کی دعا
پھر نماز کیلئے اذان و اقامت کہے اور ان کے درمیان ایک سجدہ یا ایک نشست کا فاصلہ دے اور یہ دُعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ قَلْبِی بَارّاً وَعَیْشِی قَارّاً وَرِزْقِی دَارّاً وَاجْعَلْ لِی عِنْدَ قَبْرِ رَسُولِکَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ مُسْتَقَرّاً وَقَرَاراً۔
اے معبود! میرے دل کو نیک میریزندگی کو آسودہ اور میرے رزق کومسلسل کر دے اور میرے لیے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ پاک کے نزدیک ٹھکانا اور قرارگاہ بنا دے۔
اس وقت خدا سے جو دُعا چاہے مانگے اور جو حاجت چاہے طلب کرے کیونکہ اذان و اقامت کے درمیان مانگی ہوئی دُعا رد نہیں ہوتی، اقامت کے بعد یہ کہے:
اَللَّھُمَّ إلَیْکَ تَوَجَّھْتُ وَمَرْضَاتِک طَلَبْتُ وَثَوابَکَ ابْتَغَیْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ وَعَلَیْک تَوَکَّلْتُ۔
اے معبود !میں تیری طرف متوجہ ہوں تیری خوشنودی کاطالب تیرے ثواب کا خواہش مند تجھ پر ایمان رکھتا ہوں اور تجھ پر بھروسہ کرتا ہوں
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَافْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِی لِذِکْرِکَ وَثَبِّتْنِی عَلَی دِینِکَ وَدِینِ نَبِیِّکَ وَلاَ تُزِغْ قَلْبِی بَعْدَ إذْ ھَدَیْتَنِی وَھَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَةً إنَّکَ أَنْتَ الْوَھَّابُ۔
اے معبود محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت فرما اور اپنے ذکر کیلئے میرے دل کے کان کھول دے اور مجھ کو اپنے اور اپنے نبی(ص) کے دین پرقائم رکھ ہدایت کے بعد میرے دل میں کجی نہ آنے دے اور مجھ پر اپنی خاص رحمت فرماکہ بیشک تو بہت عطا کرنے والا ہے۔
پس اب نماز کے لیے تیار ہوجاے، اپنے دل کو حاضر کرے، اپنی پستی اور اپنے مولا کی عظمت کو دل میں لائے کہ اس ذات کے سامنے مناجات کررہا ہے اپنے آپ کو اس کیفیت میں لائے کہ گویا اسکو دیکھ رہا ہے لہذا اس بات سے حیا کرے کہ کلام تو اس ذات سے کر رہا ہو لیکن اس کا دل کسی اور طرف متوجہ ہو پھر سنجیدگی اور خوف کے ساتھ کھڑا ہوجائے اور اپنے دونوں ہاتھ رانوں کے اوپر گھٹنوں کے مقابل رکھے اور دونوں پیروں کے درمیان کم از کم تین انگلیوں اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت کا فاصلہ ہو اور نگاہ مقام سجدہ پر ہو۔ پھر فریضہ صبح کی نیت قربت الی اللہ کرکے تکبیرۃ الاحرام کہے اور مستحب ہے کہ اس پر مزید چھ تکبیروں کا اضافہ بھی کرے۔ ہر تکبیر کے موقع پر ہاتھوں کو کانوں کی لؤ تک اسطرح اٹھائے کہ ہتھیلیوں کا رُخ قبلہ کی طرف ہو اور انگوٹھے کے سوا باقی تمام انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوں۔
دعائے تکبیرات
اس دوران دعائے تکبیرات پڑھے اور وہ یوں کہ تیسری تکبیر کے بعد کہے:
اَللّٰھُمَّ أَنْتَ الْمَلِکُ الْحَقُّ الْمُبینُ،لاَ إلہَ إلاَّ أَنْتَ سُبْحانَک إنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی ذَنْبِی إنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إلاَّ أَنْتَ۔
اے معبود! تو ہی سچا اورآشکار بادشاہ ہے. نہیں کوئی معبود مگر تو ہے پاک وپاکیزہ بے شک میں نے خود پر ظلم کیا پس میرے گناہ بخش دے کہ تیرے سوا کوئی معاف نہیں کر سکتا۔مگر تیری ذات۔
پانچویں تکبیر کے بعد کہے:
لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُفِی یَدَیْکَ وَالشَّرُّ لَیْسَ إلَیْکَ وَالْمَھْدِیُّ مَنْ ھَدَیْتَ عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدَیْکَ ذَلِیلٌ بَیْنَ یَدَیْکَ مِنْکَ وَبِکَ وَلَکَ وَ إلَیْکَ
خدایا میں حاضر ہوں ہماری بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے شرکا تجھ سے کوئی تعلق نہیں جسے تو ہدایت د ے وہ ہدایت یافتہ ہے تیرا بندہ اور تیرے بندے کا فرزند تیرے حضورپست تجھ سے تیرے ذریعے تیرے لیے اور تیری طرف
لاَمَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَی وَلاَ مَفَرَّ مِنْکَ إلاَّ إلَیْکَ سُبْحانَکَ وَحَنانَیْکَ تبَارَکْتَ وَتَعَالَیْتَ سُبْحانَکَ رَبَّ الْبَیْتِ الْحَرَامِ
اور تیرے سوا کوئی پناہ و نجات اورفرار کی جگہ نہیں تو پاک ہے مہربان ہے بلند ہے اور برتر ہے تو پاک ہے اور حرمت والے گھر کا مالک ہے۔
ساتویں تکبیر کے بعد یہ کہے:
:وَجَّھْتُ وَجْھِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ عالِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّھَادَةِ حَنِیفاً مُسْلِماً وَمَا أَنَا مِن الْمُشْرِکِینَ
میں نے اپنا رُخ اس خدا کی طرف کیا جو آسمانوں اور زمین کا خالق غائب و حاضر کا جاننے والا ہے باطل سے کٹا ہوا فرمانبردار ہوں اورمشرکوں سے نہیں ہوں
إنَّ صَلوٰتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلہِِ رَبِّ الْعالَمِینَ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَ بِذَلِکَ ٲُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔
بے شک میری نماز میری عبادت اور میری زندگی اور میری موت خدا کی لیے ہے جو جہانوں کا ربّ ہے اس کا کوئی ثانی نہیں مجھے یہی حکم ملا اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں
نما زبجالانے کے آداب
جب قرأت کا ارادہ کرے تو آہستہ اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَیْطَانِ الرَّجِیْمِ
کہے اور اس کے بعد پورے آداب، حضور قلب اور معانی پر غور کرتے ہوئے سورہ فاتحہ کی تلاوت کرے، اسے مکمل کر کے ایک سانس کی مقدار خاموش رہنے کے بعد قرآن کریم کی کوئی سورت پڑھے لیکن بہتر ہے کہ سورہ عمّ یا ھَل اَتیٰ یا لَا اُقسِمُ پڑھے پھر ایک سانس کی مقدار خاموش رہنے کے بعد قبل ازیں بتائے گئے طریقے سے ہاتھوں کو بلند کرکے تکبیر کہے۔ پھر رکوع میں جائے اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھنے سے پہلے دائیں ہاتھ کو دائیں گھٹنے پررکھے. جب کہ ہاتھوں کی انگلیوں کو گھٹنوں پر پھیلا کے رکھے کمر کو جھکاے رہے اور گردن کو لمبا کرکے کمر کے برابر اور نگاہیں قدموں کے درمیان رکھے اور کہے:
سُبْحانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہٖ
پاک ہے میرا رب عظمت والا اور میں حمد کرتا ہوں
بہتر ہے کہ یہ ذکر تین یا پانچ یاسات مرتبہ کرے اور مناسب ہوگا کہ اس ذکر سے پہلے یہ دُعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَأَنْتَ رَبِّی خَشَعَ لَکَ سَمْعِی وَبَصَرِی وَشَعْرِی وَبَشَرِی وَلَحْمِی وَدَمِی وَمُخِّی وَعَصَبِی وَعِظَامِی وَمَا أَقَلَّتْہُ قَدَمَایَ غَیْرَ مُسْتَنْکِفٍ وَلاَ مُسْتَکْبِرٍوَلاَ مُسْتَحْسِرٍ۔
اے معبود میں نے تیرے لیے رکوع کیا . تیرے سامنے جھکا ہوں اور تجھ پر ایمان رکھتا ہوںتجھ پر بھروسہ کرتا ہوں اور تو میرا رب ہے میرے کان، میری آنکھیں، میرے بال،میری کھال،میرا گوشت، میرا خون، میرا مغز،میرے پٹھے، میری ہڈیاںاور میراسارا وجود تیرے آگے جھکا ہے نہ مجھے اس سے انکار ہے نہ کوئی غرور اور نہ ہی تھکا وٹ ہے۔
اب رکوع سے سر اٹھائے اور سیدھا کھڑے ہوکر کہے:
سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ۔
خدانے حمد کرنے والے کی حمد سنی۔
پھر تکبیر کہہ کر کھلے ہاتھوں کے ساتھ نہایت عاجزی اور خوف سے ہتھیلیاں زمین پر رکھے اور پھر سجدے میں جائے ،پیشانی خاک کربلا سے بنے ہوئے سجدہ گاہ پر رکھے اور تین، پانچ یا سات مرتبہ
سُبحان رَبِّیَ الاَعلیٰ وَ بِحَمدِہٖ
کہے :بہتر ہے کہ اس ذکر سے پہلے یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ لَکَ سَجَدْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ، وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَأَنْتَ رَبِّی سَجَدَ وَجْھِی لِلَّذِی خَلَقَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعالَمِینَ تَبارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخالِقِینَ
اے معبود میں نے تیرے لیے سجدہ کیا تجھ پر ایمان رکھتا ہوں تیرے حوالے ہوں اور تجھ پر بھروسہ کرتا ہوں تو میرا ربّ ہے میرے چہرے نے اسے سجدہ کیا جو اس کا خالق ہے جس نے اس کے کان اور آنکھیں کھولیں حمد ہے خدا کے لیے جو جہانوں کا رب ہے بابرکت ہے خدا جو بہترین خالق ہے۔
اب ذکر سجود کرے سر سجدہ سے اٹھائے، اور بیٹھنے کے بعد مستحب ہے کہ تکبیر کہے اور بیٹھنے کی مستحب کیفیت کے ساتھ بیٹھے ﴿جو فقہی کتب میں مذکور ہے﴾ اور کہے:
أَسْتَغْفِرُاللہَ رَبِّی وَأَتُوبُ إلَیْہ
میں اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں جو میرا رب ہے ، اور توبہ کرتا ہوں
اور نیز یہ کہے:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی وَاجْبُرْنِی وَادْفَعْ عَنِّی وَعافِنِی إنِّی لِمَاأَنْزَلْتَ إلَیَّ مِنْ خَیْرٍفَقِیرٌ تَبَارَکَ اللہُ رَبُّ الْعالَمِینَ۔
اے معبود مجھے بخش دے مجھ پررحم فرما میری ضرورتیں پوری کر، بلائیں دور رکھ اور عافیت دے یقیناً میں تیری عطا کامحتاج ہوں جو تو کرتا ہے بابرکت ہے اللہ جو جہانوں کا رب ہے
پھر تکبیر کہہ کر دوسرے سجدے میں جائے اور سابقہ طریقہ سے سجدہ بجالائے اسکے بعد تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر قیام کیلئے کھڑا ہوتے ہوئے کہے:
بِحَوْلِ اللہِ وَقُوَّتِہِ أَقُومُ وَأَقْعُدُ
میں خدا کی دی ہوئی قوّت سے ہی اُٹھتا بیٹھتا ہوں
جب سیدھا کھڑا ہو جائے تو سورہ حمد کے ساتھ کوئی دوسری سورت پڑھے لیکن بہتر ہے کہ سورہ توحید﴿قل ھو اللہُ﴾
پڑھے۔ مستحب ہے کہ سورہ توحید پڑھنے کے بعد تین مرتبہ کہے:
کَذلِکَ اللہُ رَبِّی
اللہ ایسا ہی ہے جو میرا ربّ ہے
اسکے بعد تکبیر کہے اور قنوت پڑھنے کیلئے دونوں ہاتھ اُٹھا کر منہ کے سامنے لائے ہتھیلیوں کا رُخ آسمان کی طرف کرے اور انگوٹھوں کے سوا ہاتھوں کی انگلیوں کو باہم ملائے رکھے بہتر ہے کہ قنوت میں کلمات فرج
لاَ اِلٰہَ اِلّا اللہُ الحَلیمُ الکَریم
پڑھے اور اسکے بعد کہے :
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَنا وَارْحَمْنَا وَعافِنا وَاعْفُ عَنَّا فِی الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ إنَّکَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ۔
اے معبود! ہمیں بخش دے،ہم پر رحم فرما، بلائوں سے بچا اور دُنیا وآخرت میں ہم سے درگزر فرما بیشک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اسکے ساتھ ہی یہ دُعا پڑھے :
اَللّٰھُمَّ مَنْ کانَ أَصْبَحَ وَلَہُ ثِقَۃٌ أَوْ رَجاءُ غَیْرُکَ فَأَنْتَ ثِقَتِی وَرَجائِی یَا أَجْوَدَ مَنْ سُئِلَ، وَیَا أَرْحَمَ مَنِ اسْتُرْحِمَ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ
اے معبود! اگر کوئی صبح کرے جب کہ اس کا بھر وسہ اور امید تیرے غیر سے ہے تب بھی میرا بھروسہ اور امید تجھ سے ہے اے وہ بہترین سخی جس سے مانگا جاتا ہے اور اے وہ رحیم جس سے رحم کا سوال ہوتا ہے تومحمد و آل(ع) محمد پر درود بھیج
وَارْحَمْ ضَعْفِی وَمَسْکَنَتِی وَقِلَّةَحِیلَتِی، وَامْنُنْ عَلَیَّ بِالْجَنَّةِ طَوْلاً مِنْک وَفُکَّ رَقَبَتِی مِنَ النَّارِوعاَفنِی نَفْسِی وَفِی جَمِیع امُورِی بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔
اور میری کمزوری اور میری عاجزی اور بے چارگی پر رحم فرما مجھے اپنے احسان و کرم سے جنت عطا کرمجھے جہنم سے آزاد کر دے اپنی خاص رحمت سے مجھے میرے معاملات میں تحفظ دے اے سب سے زیادہ رحم کرنیوالے۔
بہتر یہ ہے کہ قنوت کو طول دیا جائے۔ کیونکہ قنوت میں پڑھی جانے والی دعائیں بہت ہیں۔ قنوت کے بعد تکبیر کہے اور پہلے کی طرح رکوع و سجود بجا لائے اور دونوں سجدوں سے فارغ ہوکرتشہد و سلام کے لیے بیٹھے ﴿جیسے فقہی کتب میں مذکور ہے﴾ اور تشہد سے پہلے کہے :
بِسْمِ اللہِ، وَبِاللہِ وَالْحَمْدُ للہِ، وَخَیْرُالْاَسْماءِ للہِ، أَشْھَدُ أَنْ لاَ إلہَ إلاَّ اللہُ۔
خدا کے نام اور اس کی ذات کے ساتھ خدا کے لیے ہے حمد اور اچھے اچھے نام میں گواہ ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں
فضائل تعقیبات
جب نماز سے فارغ ہو تو تعقیبات میں مشغول ہو جائے کیونکہ اس بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے جیسا حق تعالیٰ کا ارشاد ہے
۔فَإذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَ إلی رَبِّکَ فَارْغَبْ
پس نماز کے بعد کمر ہمّت باندھ کے خدا کی یاد میں لگ جا
اس آیت کی تفسیرمیں مذکور ہے کہ جب تم نماز سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے آپ کو پابند کرو اور اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوجاؤ اس سے اپنی حاجت طلب کرو اس کے علاوہ ہر ایک سے امیدیں منقطع کرلو حضرت امیر المومنین علیه السلام سے منقول ہے کہ تم میں سے جو شخص نماز سے فارغ ہو، وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرے اور دعا مانگتے مانگتے اپنے آپ کو تھکا دے. روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی تعقیبات رزق میں اضافے کا سبب بنتی ہیں اور مومن اس وقت تک حالت نماز ہی میں شمار ہوتا ہے جب تک کہ ذکر و دُعا میں لگا رہے. نیز اس حال میں وہ نماز ہی کے ثواب کا حامل ہوتا ہے. واجب نماز کے بعد مانگی جانے والی دُعا مستحب نماز کے بعد مانگی جانے والی دُعا سے بہتر ہوتی ہے۔ علّامہ مجلسی(رح) فرماتے ہیں. ظاہر یہ ہے کہ تلاوت، ذکر اور دُعا جو عرف میں نماز کے ساتھ متصل ہوں وہ ’’تعقیبات نماز‘‘ کہلاتے ہیں لیکن افضل یہ ہے کہ با وضو ہو کرقبلہ رُخ بیٹھ کر اور بہتر ہے کہ تشہد کے انداز میں بیٹھ کر تعقیبات بجا لائے اور تعقیبات کے دوران خصوصاً نماز عشاء کی تعقیبات کے دوران کسی سے بات نہ کرے۔ بعض بزرگان کا یہ ارشاد بھی ہے کہ تعقیبات میں بھی تمام شرائط نماز کو پیش نظر رکھے .نماز کے بعد خواہ چلتے ہوئے ہی قرآن، ذکر اور دعا میں مشغول رہے اس کو تعقیبات کا ثواب مل جائے گا۔ مؤلف کہتے ہیں: آئمہ اطہار سے تعقیبات نماز کے ضمن میں دین و دنیا سے متعلق بہت سی دُعائیں منقول ہیں۔ کیونکہ بدنی عبادات میں سب سے زیادہ باشرف عبادت نماز ہے اور تعقیبات ماثورہ تکمیل نماز میں بہت زیادہ دخل رکھتی ہیں، ان کے ذریعے حاجات بر آتی ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں۔ دُعاگو مؤلف کے دل میں یہ بات آئی ہے کہ ان تعقیبات میں سے بعض کا ذکر اس رسالے میں کرے چنانچہ یہ تعقیبات علامہ مجلسی(رح) کی کتاب ’’بحار الانوار ‘‘اور ’’مقیاس‘‘ سے نقل کی جا رہی ہیں۔عرض تعقیبات کی دو قسمیں ہیں مشترکہ اور مختصہ۔
مشترکہ تعقیبات
مشترکہ تعقیبات وہ ہیں جو ہر نماز کے بعد پڑھی جاتی ہیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے . یہاں ہم ان سے چند ایک کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں. چنانچہ ان میں سے سب سے اوّل، تسبیح فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہے۔
تسبیح فاطمہ زہرا(ع)
اس کی فضیلت میں بے حدّ و حساب احادیث وارد ہوئی ہیں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام فرماتے ہیں ہم اپنے بچوں کو حضرت زہرا(ع) کی تسبیح کا حکم بھی ویسے ہی دیتے ہیں جسطرح نماز کا حکم دیتے ہیں لہذا اسے کسی حال میں بھی ترک نہ کرو۔ جو شخص پابندی کیساتھ جناب زہرا(ع) کی تسبیح پڑھتا ہے وہ کبھی بدبخت اور شقی نہیں ہوگا۔ معتبر روایات میں واردہوا ہے کہ قرآن مجید میں خداوند عالم نے جس ’’ذکرکثیر‘‘کا حکم دیا ہے وہ تسبیح حضرت زہرا(ع) ہے۔ چنانچہ جو شخص ہر نماز کے بعد حضرت زہرا(ع) کی تسبیح پڑھتا ہے وہ ذکر کثیر کرتا اور خدا کو بہت یاد کرتا ہے۔ گویا وہ اس آیتِ مجیدہ میں موجود حکم
وَاذْکُرُوا اللہَ ذِکْراً کَثِیراً
اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کیا کرو
پر عمل پیرا ہوتا ہے معتبر سند کے ساتھ امام محمد باقر علیه السلام سے مروی ہے کہ جو شخص حضرت فاطمہ زہرا(ع) کی تسبیح پڑھنے کے بعد استغفار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا۔ زبان پر تو اس تسبیح کے سو الفاظ لانا ہوتے ہیں لیکن میزان عمل میں ہزار کے برابر ہیں اسی سے شیطان دور ہوتا ہے اور رحمان راضی ہوتا ہے۔ امام جعفر صادق علیه السلام سے صحیح اسناد کے ساتھ مروی ہے کہ جو شخص نماز کے بعد اپنے پاؤں کو نماز کی کیفیت سے ہٹانے سے پہلے حضرت فاطمہ زہرا(ع) کی تسبیح پڑھے تو اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جنّت اس کیلئے واجب ہوجاتی ہے ایک اور معتبر حدیث میں فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک ہر نماز کے بعد حضرت فاطمہ زہرا(ع) کی تسبیح پڑھنا، روزانہ ہزار رکعت نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ معتبر روایات کے مطابق حضرت امام محمد باقر علیه السلام سے مروی ہے کہ جناب زہرا سلام اللہ علیھا کی تسبیح سے بہتر کوئی اور تسبیح و تمجید نہیں ہے، جس سے عبادت الٰہی کی جائے. کیونکہ اگر اس سے بہتر کوئی اور چیز ہوتی تو رسول(ص) خدا حضرت فاطمہ زہرا(ع) کو وہی عطا فرماتے. اس کی فضیلت میں اتنی زیادہ احادیث منقول ہیں کہ ان سب کو اس مختصر سے رسالہ میں ذکر نہیں کیا جا سکتا. اس تسبیح کی کیفیت کے متعلق احادیث میں اختلاف ہے، لیکن ان میں سے زیادہ مشہور اور ظاہر یہ ہے کہ چونتیس مرتبہ:
اللہُ اکبر
(اللہ بزرگ تر ہے)
تینتیس مرتبہ:
الحمدُ للہِ
(حمد اللہ کے لئے ہے)
تینتیس مرتبہ:
سُبْحَانَ اللہِ
(خدا پاک ومنزہ ہے)
بعض روایات میں
سُبحانَ اللہِ کوالحَمدُ للہِ سے پہلے ذکر کیا گیا ہے جب کہ بعض علماء نے ان دونوں طریقوں کو اس طرح جمع کیا ہے کہ نماز کے بعد پہلے طریقہ کے مطابق پڑھے اور سونے کے وقت دوسرے طریقہ کے مطابق پڑھے اور ظاہراً دونوں صورتوں میں پہلا طریقہ ہی مشہور اور اولیٰ ہے اور سنت ہے کہ تسبیح مکمل کرنے کے بعد ایک مرتبہ کہے:
لَآ الٰہ اِلَّا اللہُ
چنانچہ امام جعفر صادق علیه السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص ہر نماز کے بعد حضرت فاطمہ زہرا(ع) کی تسبیح پڑھے اور اس کے آخر میں
لَا اِلٰہَ اِلّا اللہُ
کہے تو خدا اسے بخش دے گا۔
خاک شفاء کی تسبیح
بہتر یہ ہے کہ خاک شفا کی تسبیح کے دانوں پر اس تعداد کو شمار کرے تمام ذکر واذکار میں خاک شفا کی تسبیح کا استعمال سنت ہے اور خاک شفا کی تسبیح ہر وقت اپنے پاس رکھنا مستحب ہے یہ تمام بلاؤں کا حرز ہے اور بے انتہا ثواب کا موجب ہے. منقول ہے کہ ابتداء میں حضرت فاطمہ زہرا(ع) نے پشم کے دھاگوں پر گانٹھیں لگائی ہوئی تھیں اور وہ انہی پر یہ تسبیح پڑھا کرتی تھیں جب جناب حمزہ بن عبد المطلب شہید ہو گئے تو حضرت زہراؑ نے اس شھید بزرگوار کی قبر کی مٹی سے تسبیح بنائی اور اس پر پڑھا کرتی تھیں تب دوسرے لوگوں نے بھی اس طریقے کو اختیار کر لیا لیکن جب سید الشہداء حضرت امام حسین علیه السلام شھید کر دیئے گے تو سنت قرار پایا کہ اس شہید مظلوم(ع) کی قبر کی مٹی ﴿خاک شفا﴾ سے تسبیح تیار کرکے اس کے ذریعے ذکر واذکار پڑھا جائے۔ امام زمانہ ﴿عج﴾ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے ہاتھ میں خاک شفا کی تسبیح ہو اور وہ ذکر پڑھنا فراموش کر بیٹھے تو بھی اس کیلئے ذکر کا ثواب لکھا جائے گا امام جعفر صادق علیه السلام فرماتے ہیں کہ خاک شفا کی تسبیح خود بخود ذکر اور تسبیح پڑھتی رہتی ہے خواہ آدمی نہ بھی پڑھے، یہ بھی فرمایا کہ ایک ذکر یا استغفار جو اس تسبیح سے انجام پائے وہ دوسری تسبیحوں کے ساتھ انجام پانے والے ستر ذکر اور استغفار کے برابر ہے۔ اگر کوئی کسی ذکر کے بغیر بھی اس کے دانوں کو پھراتا رہے تو بھی اس کیلئے ہر دانہ کے بدلے سات تسبیحوں کا ثواب لکھا جاتا ہے ایک دوسری روایت کے مطابق ذکر کے ساتھ پھرائے جانے والے ہر دانے کا ثواب چالیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ایک روایت میں ہے کہ حوران جنّت جب کسی فرشتے کو زمین پر آتے دیکھتی ہیں تو اس سے التماس کرتی ہیں کہ وہ ان کے لیے تربت سید الشہداءؑ ﴿خاک شفا﴾ کی تسبیح لیتا آئے حدیث صحیح میں امام موسیٰ کاظم علیه السلام فرماتے ہیں کہ مومن کو پانچ چیزوں سے خالی نہیں ہونا چاہیئے مسواک، کنگھی، جائے نماز، عقیق کی انگوٹھی اور چونتیس دانوں کی تسبیح اس سلسلے میں خام اور پختہ دونوں بہتر ہیں لیکن خام زیادہ بہتر ہے۔ امام جعفر صادق علیه السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص خاک شفا سے ایک تسبیح پڑھتا ہے اللہ اس کیلئے چار سونیکیاں لکھ دیتا ہے، چار سوگناہ مٹا دیتا ہے چار سو حاجات پوری کرتا ہے اور چار سو درجات بلند کرتا ہے. روایت میں یہ بھی ہے کہ اس تسبیح کا دھاگا نیلے رنگ کا ہونا چاہیئے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کیلئے اپنی انگلیوں پر تسبیح پڑھنا فضیلت رکھتا ہے لیکن خاک شفا کی فضیلت والی احادیث مطلقاً زیادہ اور قوی ہیں۔ ﴿۲﴾ مستحب ہے کہ فریضہ نماز کے بعد ہاتھوں کو تین مرتبہ اُٹھا کر چہرے کے سامنے کانوں کی لوؤں تک لے جائے اور پھررانوں پر ہاتھ رکھے اور ہر مرتبہ ’’اللہُ اَکبَرُ‘‘
کہے چنانچہ علی بن ابراہیم، سیّد ابن طاؤوس اور ابن بابویہ نے معتبر اسناد کیساتھ روایت کی ہے کہ مفضل بن عمر نے امام جعفر صادق علیه السلام سے پوچھا کہ نمازی کس بنا پر نماز کے بعد تین مرتبہ تکبیر کہتا ہے تو آنجناب(ع) نے فرمایا: اس لیے کہ جب آنحضرت(ص) نے مکّہ کو فتح کیا تو حجر اسود کے پاس اپنے ساتھیوں سمیت نماز ظہر ادا کی اور جب نماز کا سلام کہہ چکے تو تین مرتبہ تکبیر کہی اور ہاتھوں کے اٹھانے کے وقت کہا:
لاَ إلہَ إلاَّ اللہُ وَحْدَہُ وَحْدَہُ وَحْدَہُ أَنْجَزَ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَأَعَزَّ جُنْدَہُ وَغَلَبَ الْاَحْزابَ وَحْدَہُ، فَلَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَیُمِیتُ وَھُوَعَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ۔
نہیں کوئی معبود مگر اللہ، وہ یکتاہے، یکتا ہے ،یکتا ہے اس نے وعدہ پورا کیا اپنے بندے کی مدد کی اپنے لشکرکو عزت دی اور گروہوں پرغالب آیا وہ یکتا ہے حکومت اسی کی اور حمد اسی کے لیے ہے وہ زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے اور وہی ہر چیز پرقدرت رکھتا ہے۔
پھر آنحضرت(ص) نے اپنا رُخ اصحاب کی طرف کیا اور فرمایا: اس تکبیر اور اس دُعا کو ہر فریضہ نماز کے بعد دہراتے رہنا اور اسے ترک نہ کرنا،جو شخص یہ عمل کرے گا وہ اسلام اور لشکر اسلام کی تقویت پر خدا کے حضور اس نعمت کا شکر ادا کرے گا. صحیح حدیث میں منقول ہے کہ جب حضرت صادق آل(ع) محمد(ص) نماز سے فارغ ہوتے تو اپنے ہاتھوں کو سر مبارک تک بلند کرکے دعا مانگتے تھے۔ امام محمد باقر علیه السلام سے مروی ہے کہ جب کوئی بندہ اپنے ہاتھ خدا کی طرف بلند کر کے دُعا مانگتا ہے تو خدا کو اس امر سے حیا آجاتی ہے کہ اسے خالی ہاتھ پلٹائے اس لیے دُعا مانگو، ہاتھوں کو نیچے کرتے وقت انہیں اپنے سر اور چہرے پر پھیر لو۔ ﴿۳﴾ شیخ کلینی(رح) نے معتبر سند کے ساتھ حضرت امام محمد باقر علیه السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص فریضہ نماز کے بعد پاؤں کو پلٹا نے سے پہلے تین مرتبہ یہ دُعا پڑھے تو خداوند اس کے تمام گناہ معاف کر دیگا خواہ وہ گناہ کثرت میں سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں اور وہ دُعا یہ ہے:
أَسْتَغْفِرُ اللہَ الَّذِی لاَ إلہَ إلاَّ ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ذُوالْجَلالِ وَالْاِکْرامِ وَأَتُوبُ إلَیْہِ
اس خدا سے بخشش چاہتا ہوں کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ پائندہ عزت و دبدبے والا ہے اور اس کے حضور توبہ کرتا ہوں
ایک روایت کے مطابق جو شخص ہر روز یہ دعائے استغفار پڑھے تو خدا اس کے چالیس گناہ کبیرہ معاف کر دیگا۔
﴿ہر فریضہ نماز کے بعد کی دعا﴾
﴿۴﴾شیخ کلینی معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیه السلام سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا: اس دعاکو ہر فریضہ کے بعد پڑھو اور ہرگز ترک نہ کرو:
ٲُعِیذُ نَفْسِی وَما رَزَقَنِی رَبِّی بِاللہِ الْواحِدِ الصَّمَدِ الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدوَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُواً أَحَدٌ
میں نے اپنی جان اورخدا سے ملی نعمتوں کو پناہ خدا میں دیا وہ واحد و بے نیازجس نے نہ کسی کو جنا نہ وہ جنا گیا اور نہ کوئی اس کا ہم پلا ہے
وَٲُعِیذُ نَفْسِی وَمَارَزَقَنِی رَبِّی بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَمِنْ شَرِّغَاسِقٍ إذَا وَقَبَ وَمِنْ شَرِّ النَّفَّثٰتِ فِی الْعُقَدِ وَمِنْ شَرِّحاسِدٍ إذا حَسَدَ
میں نے اپنی جان اور خدا سے ملی نعمتوں کوصبح کرنے والے ربّ کی پناہ میں دیا اس کی مخلوق کیشر سے اور تاریکی کے شر سے جب وہ چھاجائے گانٹھوں پر پھونکنے والیوں کے شر سے حاسدکے شرسے جب وہ حسد کرے
وَٲُعِیذُ نَفْسِی وَمَا رَزَقَنِی رَبِّی بِرَبِّ النَّاسِ مَلِکِ النَّاسِ إلہ النَّاسِ مِنْ شَرِّالْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِی یُوَسْوِسُ فِی صُدُورِ النَّاسِ مِن َالْجِنَّةِ وَالنَّاسِ
میں نے اپنی جان اور خدا سے ملی نعمتوں کو انسانوں کے ربّ کی پناہ میں دیا جو انسانوں کا بادشاہ اور معبود ہے. گھات لگانے وسوسے ڈالنے والے کے شرسے جو انسانوں کے دلوںمیں وسوسے ڈالتاہے وہ جنوں سے یا انسانوں سے ہو۔
﴿دنیا و آخرت کی بھلائی کی دعا ﴾
﴿۵﴾ شیخ کلینی(رح) نے معتبر سند کے ساتھ علی بن مہزیار سے روایت کی ہے کہ محمد بن ابراہیم نے امام علی نقی علیه السلام کی خدمت میں تحریر کیا کہ مولا اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے ایک ایسی دعا تعلیم فرمائیں جو میں ہر نماز کے بعد پڑھوں اور اس سے مجھے دُنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہو جائے اس کے جواب میں امام نے تحریر فرمایا کہ تم ہر نماز کے بعد یہ دُعا پڑھا کرو:
أَعُوْذُ بِوَجْھِکَ الْکَرِیمِ وَعِزَّتِکَ الَّتِی لاَتُرَام وَقُدْرَتِکَ الَّتِی لاَ یَمْتَنِع ُمِنْھَا شَیْئٌ مِنْ شَرِّالدُّنْیا وَالاَْخِرَةِ وَمِن ْشَرِّالْاَوْجاعِ کُلِّھَا وَلاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إلاَّ بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ۔
پناہ لیتا ہوں تیری ذات کریم اورتیری عزت کی جس کا کوئی قصد نہیںکر سکتا ُتیری قدرت کی پناہ جس سے کوئی چیز انکار نہیں کر سکتی۔ دنیا اور آخرت کے شر سے اور ہر قسم کے دکھوں دردوں سے اور نہیں اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کوئی حرکت اور قوت مگر جوبلند و بزرگ خداسے ملتی ہے۔
نماز واجبہ کے بعد دعا
﴿۶﴾کلینی(رح) اور ابن بابویہ(رح) نے صحیح و غیر صحیح اسناد کے ساتھ امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیهما السلام سے روایت کی ہے کہ نماز واجبہ کے بعد کم سے کم دُعا جو کافی ہو سکتی ہے وہ یہ ہے :
اَللّٰھُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ مِنْ کُلِّ خَیْرٍ أَحَاطَ بِہِ عِلْمُکَ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ کُلِّ شَرٍّ أَحَاطَ بِہِ عِلْمُکَ
اے معبود! میں تجھ سے ہرخیر کا سوال کرتا ہوں جوتیرے علم کے احاطے میںہے اور ہر شر سے تیری پناہ لیتا ہوں جو تیرے علم کے احاطے میں ہے
اَللّٰھُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ عَافِیَتَکَ فِی ٲُمُورِی کُلِّھَا وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ خِزْیِ الدُّنْیا وَ عَذابِ الاَْخِرَةِ۔
اے معبود! میں اپنے تمام امور میں تجھ سے سہولت کاسوال کرتا ہوں اور دُنیا و آخرت کی ہر رسوائی سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔
ابن بابویہ(رح) کی روایت کے مطابق یہ دُعا یوں ہے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ اَللّٰھُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ
اے معبود! درود بھیج محمد(ص) وآل محمد(ص) پر اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں.تا آخر دعا
نماز کے بعد طلب بہشت اور ترک دوزخ کی دعا
﴿۷﴾سنت ہے کہ جب نماز سے فارغ ہو جائے تو کہے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَجِرْنِی مِنَ النَّارِ وَأَدْخِلْنِی الْجَنَّةَ وَزَوِّجْنِی الْحُوْرَ الْعِینَ
اے معبود! درود بھیج محمد(ص) و آل محمد(ص) پر اور مجھے جہنم کی آگ سے بچااور جنّت میںداخل فرما اور حورالعین سے میری تزویج کر دے۔
جیسا کہ امیر المومنین علیه السلام سے روایت ہے کہ جب کوئی بندہ نماز سے فارغ ہو جائے تو خدا تعالیٰ سے بہشت کی دُعا کرے دوزخ سے خدا کی پناہ مانگے اور حور العین کے ساتھ تزویج کی درخواست کرے۔