امام علی نقیؑ کے فرزند سید محمدؒ کا مزار بغداد و سامرہ کے درمیان مقام بلد میں ہے کہ جو آج کل انہی کی نسبت سے سید محمدؒ کے نام سے مشہور ہے آپ بڑے صاحب کرامات بزرگ ہیں اور ان کی جلالت و کرامت کا ذکر ہر خاص و عام کی زبان پر ہے۔ اکثر لوگ آپ کی زیارت کو آتے ہیں اور وہاں بہت زیادہ نذرانے پیش کرتے اور چڑھاوے دیتے ہیں پھر آپ کو اپنا وسیلہ بنا کر خدائے تعالیٰ سے اپنی حاجات طلب کرتے ہیں ان کی جلالت کا یہ عالم ہے کہ اسی علاقے میں رہنے والے عرب ان سے خوف کھاتے ہیں اور آپ کے صحن مبارک میں بطور ہدیہ پیش کردہ چیزوں میں سے کوئی چیز اٹھا کرلے جانے کی جرات نہیں کرتے بہر حال ان کی بہت زیادہ کرامات ہیں لیکن یہ ان کے بیان کرنے کا مقام نہیں ہے سید محمدؒ، امام علی نقیؒ کے بڑے بیٹے اور امامت و ولایت کی صلاحیت سے بہرہ ور تھے‘ ان کی جلالت قدر کیلئے اتناہی کافی ہے کہ ان کی وفات پرامام حسن عسکریؑ ایسے معصوم بزرگوار نے اپنا گریبان چاک کیا۔ ہمارے استاد ثقہ الاسلام نوریؒ ﴿خدا ان کی قبر کو منور کرے﴾ جناب سید محمدؒ کی زیارت کے معتقد تھے آپ ہی نے ان کی ضریح اور اس سے متصل مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں سعی و کوشش فرمائی‘ آپ نے ان کی ضریح مبارک پر جو کتبہ لگایا اس کی عبارت یہ ہے۔ یہ قبر ہے سید و سردار ابو جعفر محمد بن امام ابوالحسن علی نقی ہادیؑ کی جو بڑی شان و عزت رکھتے ہیں شیعہ یہ گمان کرتے تھے کہ وہ اپنے والد کے بعد امام ہوں گے پھر جب وہ فوت ہوگئے تو ان کے والد نے ان کے بھائی ابو محمدؒ کی امامت کا اعلان کیا اور ان سے کہا کہ خدا کا شکر کرو خدا نے تمہارے لیے حکم جاری کیا والد نے انہیں بچپنے میں مدینہ میں چھوڑا وہ جوان ہوئے تو ان کے پاس سامرہ آئے وہ حجاز واپس جا رہے تھے جب نو فرسخ چل کر کربلا پہنچے تو بیمار ہوئے اور فوت ہوگئے ان کی قبر اسی جگہ ہے آپ کی وفات پر امام حسن عسکریؑ نے گریبان چاک کیا تب بعض لوگوں کے جواب میں فرمایا کہ موسیٰ(ع) نے اپنے بھائی ہارون(ع) کی وفات پر گریبان چاک کیا تھا سید محمدؒ نے دو سو باون ہجری میں وفات پائی۔ ان بزرگوار سید محمدؒ کیلئے کوئی خاص زیارت وارد نہیں ہوئی ﴿تاہم ان کی زیارت کو جانا چاہیے اور اولادِ ائمہؑ کیلئے منقول زیارت مطلقہ پڑھنی چاہیے﴾ جب سامرہ میں عسکریینؑ سے وداع کرنا چاہے تو انکی ضریح پاک کے نزدیک کھڑے ہو کر یہ وداع پڑھے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُما یَا وَلِیَّیِ اللهِ ٲسْتَوْدِعُکُمَا ﷲ وَٲقْرَٲُ عَلَیْکُمَا اَلسَّلَامُ
سلام ہو آپ دونوں پر اے اولیاء خدا میں نے آپ دونوں کو حوالہ خدا کیا اور آپ کو سلام کہتا ہوں
آمَنَّا بِاللهِ وَبِالرَّسُولِ وَبِما جِئتُما بِہِ وَدَلَلْتُما عَلَیْہِ۔ اَللّٰھُمَّ اکْتُبْنا مَعَ الشَّاھِدِینَ۔
ہم ایمان رکھتے ہیں خدا و ررسول(ص) پر اور جو کچھ آپ لائے اور اس پر جسکی طرف آپؑ نے رہبری فرمائی۔ اے معبود ہمیں گواہوں میں مرقوم فرما
اَللّٰھُمَّ لاَ تَجْعَلْہُ آخِرَ الْعَھْدِ مِنْ زِیارَتِی إیَّاھُما وَارْزُقْنِی الْعَوْدَ إلَیْھِما
اے معبود ان دونوں کے لیے میری اس زیارت کو آخری زیارت قرار نہ دے مجھے بار دیگر ان کے ہاں حاضر ہونے کا موقع عنایت فرما
وَاحْشُرْنِی مَعَھُما وَمَعَ آبائِھِمَا الطَّاھِرِینَ وَالْقائِمِ الْحُجَّةِ مِنْ ذُرِّیَتِھِما یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔
مجھے ان دونوں اور ان کے پاک بزرگان کے ساتھ اور ان کی اولاد میں سے حجت(ع) قائم کے ساتھ محشور فرما اے سب سے زیادہ رحم والے۔