شہ مردان علی مرتضیٰؑ کا غلام شاہ عباس کہ جو نیک خصلت شہنشاہ ہے۔ وہ شاہ خراسان امام علی رضاؑ کے روضہ پر حاضری دینے کے لیے خلوص و محبت کے ساتھ پیدل چل کر گیا۔ شاہ عباس کے پا پیادہ جانے کی تاریخ یہ ہے کہ وہ اصفہان سے مشہد تک پیدل چلا یہ 1009ھ کا واقعہ ہے۔ چنانچہ 1009ھ میں جب شاہ عباس مشہد مقدس آئے تو انہوں نے صحن مبارک کو کشادہ کیا اور ایوان علی شیر کودرمیان میں رکھا کہ جو پہلے روضہ پاک کے ایک طرف صحن میں واقع تھا اور کچھ بھلا نہ لگتا تھا‘ جو ایوان اس کے سامنے تھا اسے دوسری طرف بنوایا‘ ایک سڑک شہر کے مغربی دروازے سے مشرقی دروازے تک بنائی جو ہر طرف سے صحن مبارک تک جاتی تھی۔ شہر مشہد کے لیے نہریں اور چشمے بنائے ایک نہر اس سڑک کے وسط سے نکالی جو صحن مبارک سے گزرتی ہوئی باہر چلی جاتی تھی‘ صحن کے درمیان میں ایک حوض بنوایا کہ پانی اس میں سے گزر کر مشرق میں سڑک کی طرف نکل جاتا ہے۔ پھر ہر نئی تعمیر پر کتبے لگوائے جو میرزا محمد رضائی صدر الکتاب علی رضا عباسی اور محمد رضا امامی کے خط میں ہیں شاہ عباس نے ہی امام علی رضاؑ کا قبہ سونے کی اینٹوں سے بنوایا اور اس کے لیے جو کتبہ لکھا گیا ہے اس کا مضمون یہ ہے۔ اس خدا کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے ۔ خدا کی عظیم تو فیقات سے ہے کہ اس نے توفیق دی کہ بادشاہ اعظم ،عرب و عجم کے بادشاہوں کے آقا ،پاکیزہ نسبت والے ،روشن علوی حسب والے حرم مطہر کے خادموں کے قدموں کی خاک ، اس روضہ منورہ کے زائرین کی جو تیوں کا غبار ،اپنے معصوم اجداد کے آثار کے مروج بادشاہ ابن بادشاہ ابو مظفر شاہ عباس حسین موسوی صفوی بہادر خان اپنے دارالسلطنت اصفہان سے پیدل چلنے کے لئے آمادہ ہوئے اس کی زیارت کیلئے اور وہ اس قبہ کی زینت کی اپنے خالص مال کے ساتھ مشرف ہوا اور یہ کام 1010ھجری میں شروع ہوا اور 1016ھجری میں مکمل ہوا ۔
?