• AA+ A++

﴿۱﴾معتبر سند کے ساتھ امام علی نقیؑ سے نقل ہوا ہے کہ جس شخص کو خدائے تعالیٰ سے کوئی حاجت ہو تو اسے طوس میں میرے جدِ بزرگوا کی زیارت کرنا چاہئے‘ وہ غسل کرے اور حضرت کے سرہانے کی طرف ہو کر دو رکعت نماز پڑھے اور اس نماز کی قنوت میں اپنی حاجت طلب کرے تو وہ لازماً پوری ہو گی سوائے اس کے کہ اس میں کسی گناہ یا قطع رحم کا دخل ہو کیونکہ امام علی رضاؑ کی قبر شریف جنت کے گھروں میں سے ایک گھر ہے پس کوئی مومن اس کی زیارت نہیں کرے گا مگر یہ کہ حق تعالیٰ اس کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا اور جنت میں داخل فرمائے گا۔

﴿۲﴾علامہ مجلسی(رح) نے شیخ جلیل حسین بن عبد الصمد ﴿شیخ بہائی(رح) کے والد﴾ کا ایک مکتوب نقل کیا ہے جس میں تحریر ہے کہ شیخ ابوالطیب حسین بن احمد(رح) فقیہ رازی نے فرمایا ہے کہ جو شخص امام علی رضاؑ یا ائمہ معصومینؑ میں سے کسی امام کی بھی زیارت کرے اور ان کی قبر مبارک کے نزدیک نماز جعفر طیار(ع) بجا لائے تو اس کے لیے ہر رکعت کے بدلے ایک ہزار حج ایک ہزارہ عمرہ کا ثواب ہے نیز خدا کے نام پر ایک ہزار غلام آزادکرنے اور ایک ہزار جہاد کا ثواب لکھا جاتا ہے جو اس نے کسی نبی مرسل کی معیت میں کیا ہو. مزید برآں اس کیلئے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور سو گناہ محو کر دیے جائیں گے نماز جعفر طیار(رض) کا طریقہ روز جمعہ کے اعمال میں گذر ہو چکا ہے بوقت ضرورت وہاں مراجعہ فرمائیں۔

﴿۳﴾محول سجستانی سے روایت ہے کہ جب ماموں الرشید عباسی نے امام علی رضاؑ کو مدینہ منورہ سے خراسان بلایا تو حضرت اپنے جد بزرگوار نبی اکرم(ص) سے وداع کرنے مسجد نبوی میں گئے‘ آپ بار بار آنحضرت(ص) کی قبر مبارک سے وداع کر کے باہر آتے اور پھر پلٹ جاتے اور ہر بار آپ کے گریہ کی آواز بلند تر ہوتی جاتی تھی۔ راوی کا بیان ہے کہ اسوقت میں حضرت کے نزدیک گیا سلام کیا آپ نے جواب سلام دیا اور میں نے انہیں اس سفر کی مبارکباد پیش کی‘ تب حضرت نے فرمایاکہ ابھی تم میری زیارت کر لو جب کہ میں اپنے جد بزرگوار سے بچھڑ کر دور جا رہا ہوں اور میں اسی سفر میں تنہائی کی حالت میں دنیا سے گزر جاؤں گا اور مجھ کو ہارون الرشید کے پہلو میں دفن کیا جائے گا۔ شیخ یوسف بن حاتم شامی نے در النظیم میں فرمایا ہے کہ امام علی رضاؑ کے چند اصحاب نے مجھے بتایا ہے کہ حضرت نے فرمایا: جب میں مدینہ منورہ سے روانہ ہونے لگا تو میں نے اپنے اہل و عیال کو جمع کر کے انہیں حکم دیا کہ وہ مجھ پر گریہ و بکا کریں کہ اسے میں خود سنوں‘ میں نے بارہ ہزاردینار ان میں تقسیم کیے اور یہ بھی کہا کہ میں اس سفر سے لوٹ کر تمہارے پاس نہ آسکوں گا نیز میں نے اپنے فرزند ابو جعفر جواد(ع) کا ہاتھ پکڑا انہیں اپنے جد بزرگوار کی قبر شریف پر لے گیا اور ان کا ہاتھ اس پر رکھوا کر انہیں اس سے لپٹا دیا اور آنحضرت(ص) سے ان کی حفاظت کرنے کی درخواست کی اپنے تمام خدام و وکلا کوابو جعفر جواد(ع) کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ان کی مخالفت سے منع کیا اور ان سب کو بتلایا کہ یہ میرے قائم مقام و جانشین ہیں۔

﴿۴﴾سید عبدالکریم بن طاؤوس(رح) نے روایت کی ہے کہ جب مامون الرشید نے امام علی رضاؑ کو مدینہ سے خراسان بلایا تو آپ مدینہ سے بصرہ اور وہاں سے کوفہ ہوتے ہوئے بغداد اور وہاں سے قم پہنچے‘ جب آپ قم میں داخل ہوئے تو لوگ آپ کا استقبال کرنے آئے ان میں سے ہر ایک یہ اصرار کرتاتھا کہ حضرت میرے مہمان ہوں آپ نے فرمایا کہ میرا اونٹ اس پر مامور ہے اور وہ جہاں بیٹھے گا میں اسی کے ہاں مہمان ہوں گا چنانچہ وہ اونٹ چلتے چلتے ایک ایسے شخص کے گھر کے سامنے بیٹھ گیا جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ کل امام علی رضاؑ اس کے مہمان بنیں گے۔ زیادہ مدت نہ گزری کہ وہ جگہ ایک بلند مرتبہ مقام قرار پا گئی اور اب ہمارے زمانے میں اس مکان میں ایک دینی مدرسہ قائم ہے۔

﴿۵﴾شیخ صدوق(رح) نے اسحاق بن راہویہ سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا: جب امام علی رضاؑ نیشا پور پہنچے اور وہاں سے آگے روانہ ہونا چاہا تو وہاں کے علماء و محدثین حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کی کہ اے فرزند رسول(ص)! آپ ہمارے ہاں سے جا رہے ہیں تو کیا آپ ہمیں کوئی حدیث سنائیں گے کہ جس سے ہم استفادہ کریں؟ آپ اس وقت عماری ﴿کجاوے﴾ میں بیٹھے تھے پس آپ نے اپنا سر مبارک عماری سے باہر نکالا اور فرمایا: میں نے اپنے والد بزرگوار امام موسیٰ کاظمؑ سے سنا انہوں نے اپنے والد گرامی امام جعفر صادقؑ سے انہوں نے اپنے والد امام محمد باقرؑ سے انہوں نے اپنے والد بزگوار امام علی بن الحسینؑ سے اور انہوں نے اپنے والد گرامی امام حسینؑ سے انہوں نے اپنے پدرگرامی امام علی بن ابی طالبؑ سے اور انہوں نے نبی کریمؐ سے سنا کہ آپ نے فرمایا۔ میں نے حضرت جبرائیلؑ سے اور انہوں نے خدائے عزوجل سے سنا کہ اس نے فرمایا: لاَ اِلَہَ اِلاَّ اللہُ حِصْنِیْ فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِیْ اَمِنَ مِنْ عَذَابِیْ یعنی کلمہ لاَ اِلَہَ اِلاَّ اللہُ میرا قلعہ ہے اور جو بھی میرے اس قلعے میں داخل ہو جائے وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا۔ آپ نے یہ فرمایا اور روانگی کا حکم دے دیا جب آپ کا اونٹ چل پڑا تو آپ نے ہمیں پکارا اور فرمایا بِشُرُوطِھَا۔۔۔۔ وَاَنَا مِنْ شُرُوطِھَا یعنی یہ حکم اپنی شرط اور شروط کے ساتھ ہے اور میں بھی اس قلعہ کی ایک شرط ہوں یعنی مجھ کو امام برحق ماننا بھی اس قلعہ میں داخل ہونے کی ایک شرط ہے۔

﴿۶﴾ابوالصلت سے روایت ہے کہ اس سفر میں جب امام علی رضاؑ سرخ نامی گاؤں میں پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے عرض کی کہ اے فرزند رسول(ص)! وقت ظہر ہو چکا ہے کیا آپ یہاں نماز ادا نہیں فرماتے؟ اس پر آپ وہیں اتر پڑے اور وضو کے لیے پانی طلب فرمایا تو وہ لوگ کہنے لگے کہ پانی تو ہمارے ہاں نہیں ہے! یہ سن کر آپ نے اپنے دست مبارک سے زمین کو کھودا پس وہاں سے اتنا پانی ابل پڑا کہ آپ نے اور آپ کے تمام ساتھیوں نے اس سے وضو کیا اور پانی کا یہ چشمہ اب بھی وہاں موجود ہے۔ پھر جب آپ سنا آباد شہر میں آئے تو آپ نے پشت مبارک سے ایک پہاڑی کے ساتھ ٹیک لگائی اور اس کے پتھر سے اب تک ہانڈیاں تراشی جاتی تھیں‘ آپ نے فرمایا تھا کہ خداوند! اس پہاڑی کو نفع بخش بنا دے اور ہر اس چیز میں برکت دے جو اس کے پتھر سے بنے ہوئے برتن میں رکھی جائے‘ راوی کا کہنا ہے کہ لوگوں نے اس پتھر سے ہنڈیاں تراش کر کے خود حضرت کی خدمت میں بھی پیش کیں اور آپ نے حکم دیا تھا کہ میرے لیے اس ہنڈیا میں کھانا پکایا جائے۔ چنانچہ اسی دن سے وہاں کے لوگوں نے اس پہاڑی کے پتھر سے برتن بنانے شروع کیے اور انہیں بابرکت پایا۔

﴿۷﴾صاحب مطلع الشمس نے نقل کیا ہے کہ پچیس ذوالحجہ 1006ھ میں شاہ عباس اول مشہد آئے اور دیکھا کہ عبدالمومن خان اوزبکی نے حرم مبارک کو لوٹ لیا اورحجرہ طلا کے سوا وہاں کچھ نہیں چھوڑا شاہ عباس اٹھائیس ذوالحجہ کو ہرات گئے اور اسے فتح کر لیا وہاں کا انتظام مکمل کرنے کے بعد مشہد مقدس آگئے اور ایک مہینہ وہیں ٹھہرے اس دوران میں صحن مبارک کی مرمت کروائی خدام حرم کو انعام و اکرام سے نوازا اور عراق چلے گئے۔ پھر 1008ھ کے اواخرمیں شاہ عباس بار دیگرمشہد مقدس گئے اور پورا موسم سرما وہیں گزارا‘ اس عرصے میں آستان قدس کے خادم کی حیثیت سے بہ نفس نفیس تمام خدمات انجام دیتے رہے یہاں تک کہ شمع کی صفائی خود کرتے اور قینچی سے اسکی بتی کاٹ کر درست کرتے تھے چنانچہ شاہ کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے شیخ بہائی(رح) نے فی البدیہہ یہ اشعار کہے:

پیوستــه بُـوَد ملائک علّییـن
پروانه شمع روضه خُلد آیین
مقراض به احتیاط زن ای خادم
ترسم ببری شهپر جبریل امین

عالم بالا کے فرشتے ہمیشہ اس جنت جیسے روضہ کی شمع پر مثل پروانوں کے پرواز کرتے ہیں‘ اے اس آستان کے خدمتگار یہ قینچی ذرا احتیاط سے چلاؤ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کہیں تم جبریل کا پر ہی نہ کاٹ دو۔

شاہ عباس نے نذر مان رکھی تھی کہ وہ پاپیادہ مشہد مقدس جا کر امام علی رضاؑ کی زیارت کریں گے چنانچہ اپنی اس نذر کو پورا کرنے کے لیے 1009ھ میں پیدل یہاں آئے اور یہ سفر اٹھائیس دنوں میں طے کیا‘ اس موقع کی مناسبت سے صاحب تاریخ عالم آرا نے یہ اشعار کہے:

غلام شاه مردان شاه عبّاس
شه والا گُهر خاقان امجَد
به طوف مرقد شاه خراسان
پیاده رفت با اخلاص بی‌حدّ
پیاده رفت شد تاریخ رفتن
ز اصفاهان پیاده تا به مشهد

?