شیخ طوسی(رح) نے بہ سند صحیح محمد بن مسلم کے واسطے سے امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا: خدا نے فرشتوں سے زیادہ کوئی مخلوق پیدا نہیں کی چنانچہ ہر روز ستر ہزار فرشتے بیت المعمور پر اترتے اور اسکا طواف کرتے ہیں اسکے بعد کعبہ میں آکر اسکا طواف کرتے ہیں، پھر روضہ رسول (ص)پر حاضر ہوتے اور سلام عرض کرتے ہیں اس کے بعد قبر امیر المؤمنینؑ پر آ کر سلام پیش کرتے ہیں۔ پھر قبر امام حسینؑ پر حاضر ہو کر سلام کرتے ہیں اور یہاں سے آسمان کی طرف پرواز کر جاتے ہیں ۔اور تا قیامت فرشتو ں کی آمد ورفت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آپ نے مزید فرمایا: جو شخص امیر المومنینؑ کی ان کے حق کو پہچانتے ہوئے زیارت کرے یعنی ان کے واجب الاطاعت امام اور خلیفہ بلا فصل ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو اور اس نے یہ زیارت مجبورا ً یا بڑائی جتانے کے لئے نہ کی ہو تو خدا اس کے لئے ایک لاکھ شھیدوں کا ثواب لکھے گا ،اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دے گا۔ وہ قیامت کے خوف و خطر سے امن میں ہو گا، خدا اس کا حساب آسان کر دے گا اور فرشتے اس کا استقبال کر رہے ہوں گے ۔ جب وہ زیارت سے واپس جائے گا تو فرشتے اسکے ساتھ ہو ں گے جو اسکے گھر تک جائیں گے، وہ بیمار ہو گا تو فرشتے اسکی عیادت کریں گے مرے گا تو وہ اسکے جنازے کے ہمراہ چلیں گے اور قبر تک اس کیلئے مغفرت کی دعا کرتے جائیں گے۔ سید عبد الکریم ابن طاؤس نے اپنی کتاب فرحتہ الغری میں امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے کہ فرمایا: جو شخص امیرالمومنینؑ کی زیارت کو پاپیادہ جائے تو حق تعالیٰ ہر قدم کے عوض ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھے گا۔ اگر واپسی میں بھی پا پیادہ چلے تو حق سبحانہ اس کے ہر قدم کے بدلے میں اس کے لئے دو حج اور دو عمرے کا ثواب لکھے گا۔ انہوں نے امام جعفر صادقؑ سے یہ روایت بھی کی ہے کہ آپ نے ابن مارو سے فرمایا: اے ابن مارو! جو شخص میرے جد امیر المومنینؑ کے حق کو پہچانتے ہوئے آپ کی زیارت کرے تو حق تعالیٰ اسکے ہر قدم کے بدلے میں اس کیلئے حج مقبول اور عمرہ پسندیدہ کا ثواب لکھے گا۔ اے ابن مارو!جو قدم حضرت امیرالمومنینؑ کی زیارت میں گرد آلود ہوگا اسے آتش جہنم نہ جلائے گی خواہ پیادہ جائے یا سوار ہوکر جائے۔ اے ابن مارو!اس حدیث کو آب زر کے ساتھ لکھ لو۔نیز آنجناب(ع) سے ہی یہ روایت کی ہے کہ فرمایا:ہم کہتے ہیں کہ شہر کوفہ کے عقب میں ایک قبر ہے کہ جو دکھی شخص اس کی پناہ لیتا ہے حق تعالی اس کا دکھ دور کر دیتا ہے : مؤلف کہتے ہیں : معتبر روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے تعالی نے امیر المومنینؑ اور ان کی پاکیزہ اولاد کے مزارات کو خوف زدہ اور ستم رسیدہ لوگوں کے لئے جائے پناہ اور اہل زمین کے لئے وسیلہ امان قرار دے رکھا ہے ۔جب کوئی غمزدہ ان کے پاس آ جاتا ہے اس کا غم دور ہوجاتا ہے اورآسیب زدہ خود کو اس سے مس کر کے شفا حاصل کرتا ہے اور جو پناہ چاہتا ہے امان میں ہوتا ہے۔ عبد الکریم ابن طاؤس نے محمد بن علی شیبانی سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا :میں، میرا باپ اور میرا چچا حسین ۲۶۰ھ خفیہ طور پر قبر امیر المومنینؑ کی زیارت کو گئے ۔جب کہ میں چھوٹا بچہ تھا ۔جب ہم قبر مبارک پر پہنچے تو دیکھا کہ آپ کی قبر کے چاروں طرف سیاہ پتھر رکھے ہوئے تھے اور اس پر کوئی عمارت نہیں بنی ہوئی تھی ۔ہم قبر مطہر کے نزدیک گئے ہم میں بعض تلاوت، بعض نماز اور بعض زیارت پڑھنے میں مشغول ہوگئے ،اچانک ہم نے کیا دیکھا کہ ایک شیر ہماری طرف آرہا ہے جب وہ ہمارے قریب آیا تب ہم قبر شریف سے ایک نیزہ بھر دور ہٹ گئے۔ وہ حیوان قبر مبارک کے نزدیک ہوا اور اپنی اگلی ٹانگیں اس سے مس کرنے لگا ہم میں سے ایک شخص اس کے قریب گیا اور اسے دیکھا۔ مگر شیر نے اسے کچھ نہ کہا ،وہ واپس آیا اور ہمیں شیر کے حال سے باخبر کیا۔ تب ہمارا خوف دور ہو گیا اور ہم قبر شریف کے نزدیک چلے گئے، ہم نے دیکھا کہ شیر کے بازو زخمی ہیں اور وہ ان کو قبر سے ملتا اور مس کرتا جارہا ہے وہ کچھ دیر کے بعد وہاں سے چلا گیا تو ہم دوبارہ تلاوت و نماز اور زیارت میں مصروف ہوگئے۔
شیخ مفید نقل فرماتے ہیں کہ ایک دن ہارون الرشید شکار کے ارادے سے کوفہ سے باہر گیا اور غریین و ثویہ ّ﴿نجف وا شرف﴾کی طرف جا نکلا۔اس نے وہاں چند ہرن دیکھے تو شکاری باز اور شکاری کتے ان کے پیچھے لگا دیئے ،یہ دیکھ کر ہرن وہاں سے بھاگے اور ایک ٹیلے پر جا بیٹھے ۔اس پر شکاری باز ایک طرف بیٹھ گئے اور کتے پلٹ آئے،ہارون یہ صورتحال دیکھ کر حیران رہ گیا وہ ہرن ٹیلے سے نیچے اترے تو بازوں اور کتوں نے دوبارہ ان کا پیچھا کیا ۔وہ پھر ٹیلے پر چڑھ گئے اور شکاری جانور پلٹ پڑے۔ یہاں تک کہ تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا ۔ہارون سخت حیران ہوا، اس نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ جلدی سے کسی ایسے شخص کو لاؤجو اس مقام کے حالات سے واقف ہو غلام بھاگے ہوئے گئے اور قبیلہ بنی اسد میں سے ایک بوڑھے آدمی کو لے آئے، ہارون نے اس سے پوچھا کہ اس ٹیلے کا کیا ماجرا ہے اس جگہ کی کیا خصوصیت ہے ؟ اس بوڑھے نے کہا اگر آپ مجھے امان دیں تو عرض کروں !ہارون بولا: میں خدا سے عہد کرتا ہوں کہ تجھے کوئی اذیت نہ دوں گا اور تو امان میں رہے گا، بس اب تو بات بتا دے جو تجھے اس مقام کے بارے معلوم ہے۔ بوڑھا کہنے لگا :
میرے باپ نے اپنے آباؤ اجداد سے سنا اور اس نے مجھے بتایا کہ اس ٹیلے میں حضرت امیر المومنینؑ کی قبر ہے کہ خدا نے اس کو امن وامان کا حرم قرار دیا ہے ،جو اس کی پناہ لے گا وہ امان میں میں رہے گا فقیر کہتا ہے:عرب کی کہاوتوں میں کہا گیا ہے ’’احمیٰ مِنْ مُجِیرِ الْجَرادُ‘‘یعنی فلاں شخص ٹڈیوں کو پناہ دینے والے سے زیادہ پناہ دینے والا ہے ۔اس کا قصہ یہ ہے کہ قبیلہ بنی طی کا ایک شخص مدلج بن سوید اپنے خیمے میں بیٹھا تھا کہ قبیلہ کے کچھ لوگ برتن لئے ہوئے وہاں آگئے۔ اس نے پوچھا تو کہنے لگے تمہارے خیمے کے پاس بہت سی ٹڈیاں جمع ہو گئی ہیں اور ہم پکڑنے آئے ہیں ،یہ سن کر مدلج گھوڑے پر سوار نیزہ لئے باہر نکل آیااور کہنے لگا ۔ قسم بخداجو بھی ان ٹڈیوں کو پکڑنے کی کوشش کرے گا ،میں اسے قتل کر دوں گا ، کیا یہ ٹڈی میرے پڑوس اور میری پناہ میں نہیں ہے ؟ اور تم انہیں پکڑنے آ گئے ہو ۔ایسا کبھی نہ ہوگا ! وہ ان کی نگہبانی کرتا رہا، یہاں تک کہ سورج بلند ہو گیا اور وہ ٹڈیاں وہاں سے اڑ گئیں تب اس نے لوگوں سے کہا کہ اب یہ میری پناہ میں نہیں ہیں ۔ لہذا ان کے بارے میں تم جو چاہو کرتے رہو۔ صاحب قاموس کہتے ہیں کہ ذوالاعواد ایک معزز اور محترم شخص کا لقب تھا بعض کا خیال ہے کہ وہ اکثم بن صیفی کا دادا تھا قبیلہ مضر کے لوگ ہر سال اسے خراج دیتے تھے، جب وہ بوڑھا ہوگیا تو وہ اسے ایک تخت پر بٹھائے قبائل عرب میں اٹھائے اٹھائے پھرتے اور اس کے نام پر خراج وصول کرتے تھے،وہ اس قدر محترم شخص تھا کہ جو خوف زدہ خود کو اس کے تخت تک پہنچاتا وہ امن میں ہوجاتا جو پست آدمی اس کے تخت کے قریب آتا وہ عزت دار بن جاتا اور جو بھوکا اس کے پاس چلا آتا وہ بھوک سے نجات پا جاتا تھا۔جب ایک عرب کے تخت کی یہ عزت و رفعت ہے تو پھر اس میں کیا تعجب ہے کہ خدائے تعالی نے اپنے ولی کہ جس کے جنازے کو اٹھانے والے جبرائیل (ع)و میکائیل (ع)اور امام حسنؑ و امام حسینؑ رہے ہوں ،ان کی قبر کو خوف زدہ لوگوں کی پناہ ، بھاگنے والوں کی قرار گاہ اور بے کسوں کی جائے فریاد قرار دیا ہے بیماروں کی فریاد رسی اور دردمندوں کیلئے شفا قرار دیا ہو ایسا مومن جہاں کہیں بھی ہو وہ خود کو امیرالمومنینؑ کی قبر مطہر پر پہنچائے اور اس سے لپٹ کر آہ و زاری کرے تاکہ وہ فریاد کو پہنچے اور اس کو دنیا و آخرت کی ہلاکتوں سے نجات عطا کرے۔
لُذْ إلَی جُودِہِ تَجِدْہُ زَعِیماً
بِنَجاةِ الْعُصاةِ یَوْمَ لِقَاھَا
اس کے وجود کی پناہ لے اسے سردار پائے گا
وہ قیامت میں گناہ سے معافی دلائے گا
عائِدٌ لِلْمُؤَمِّلِینَ مُجِیبٌ
سامِعٌ مَا تُسِرُّ مِنْ نَجْوَاھَا
وہ امیدواروں کی امید بر لانے والا ہے
وہ راز و نیاز کا سننے والا ہے
دارالاسلام میں شیخ دیلمی سے نقل ہوا ہے اور انہوں نے نجف اشرف کے صالح بزرگوں سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ اس بارگاہ کے اندر اور باہر جتنی قبریں ہیں ان میں ہر قبر سے ایک رسی قبئہ حضرت امیرالمومنینؑ تک تنی ہوئی ہے، یہ امید افزا منظر دیکھ کر اس شخص نے یہ اشعار کہے:
إذا مُتُّ فَادْفِنِّی إلَی جَنْبِ حَیْدَرٍ
أَبِی شُبَّرٍ أَکْرِمْ بِہِ وَشُبَیْرِ
جب میں مروں تو مجھے پہلوئے حیدر میں دفن کرو
کتنا بزرگوار ہے حسن (ع)و حسین (ع)کا باپ
فَلَسْتُ أَخافُ النَّارَ عِنْدَ جِوارِہِ
وَلا أَتَّقِی مِنْ مُنْکَرٍ وَنَکِیرِ
ان کے زیر سایہ مجھے جہنم کا کچھ بھی خوف نہیں
اور نہ مجھ کو منکر نکیر کا ڈر ہے
فَعارٌ عَلَی حامِی الْحِمیٰ وَھُوَ فِی الْحِمیٰ
إذَا ضَلَّ فِی الْبَیْداءِ عِقالُ بَعِیرِ
حمایت کرنے والوں کے لئے عار ہے اس کی حمایت میں
اونٹ کے پاؤں کی رسی بھی گم ہو جائے