• AA+ A++

یہ یوم عاشور ہے جو امام حسینؑ کی شہادت کا دن ہے یہ ائمہ طاہرین اور ان کے پیروکاروں کیلئے مصیبت کا دن ہے اور حزن و ملال میں رہنے کادن ہے ،بہتر یہی ہے کہ امام علیؑ کے چاہنے اور ان کی اتباع کرنے والے مومن مسلمان آج کے دن دنیاوی کاموں میں مصروف نہ ہوں اور گھر کے لئے کچھ نہ کمائیں بلکہ نوحہ و ماتم اور نالہ بکاء کرتے رہیں، امام حسینؑ کیلئے مجالس برپا کریں اور اس طرح ماتم و سینہ زنی کریں جس طرح اپنے کسی عزیز کی موت پر ماتم کیا کرتے ہوں آج کے دن امام حسینؑ کی زیارت عاشور پڑھیں جو زیارت کے باب میں ذکر ہوگی، حضرت کے قاتلوں پر بہت زیادہ لعنت کریں اور ایک دوسرے کو امام حسینؑ کی مصیبت پر ان الفاظ میں پرسہ دیں۔

أَعْظَمَ اللہُ ٲُجُورَنا بِمُصابِنا بِالْحُسَیْنِ وَجَعَلَنا وَ إیَّاکُمْ مِنَ الطَّالِبِینَ بِثارِہِ مَعَ وَلِیِّہِ الْاِمامِ الْمَھْدِیِّ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمُ اَلسَّلَامُ

اللہ زیادہ کرے ہمارے اجر و ثواب کو اس پر جو کچھ ہم امام حسینؑ کی سوگواری میں کرتے ہیں اور ہمیں امام حسینؑ کے خون کا بدلہ لینے والوں میں قرار دے اپنے ولی امام مہدیؑ کے ہم رکاب ہو کر کہ جو آل محمد میں سے ہیں۔

ضروری ہے کہ آج کے دن امام حسینؑ کی مجلس اور واقعات شہادت کو پڑھیں خود روئیں اور دوسروں کو رلائیں، روایت میں ہے کہ جب حضرت موسیٰؑ کو حضرت خضرؑ سے ملاقات کرنے اور ان سے تعلیم لینے کا حکم ہوا تو سب سے پہلی بات جس پر ان کے درمیان مذاکرہ مکالمہ ہوا وہ یہ ہے کہ حضرت خضرؑ نے حضرت موسیٰؑ کے سامنے ان مصائب کا ذکر کیا جو آل محمد پہ آنا تھے، اور ان دونوں بزرگواروں نے ان مصائب پر بہت گریہ و بکا کیا۔

ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:میں مقام ذیقار میں امیرالمؤمنینؑ کے حضور گیاتو آپ نے ایک کتابچہ نکالا جو آپ کا اپنا لکھا ہوا اور رسول اللہ کا لکھوایا ہوا تھا، آپ نے اس کا کچھ حصہ میرے سامنے پڑھا اس میں امام حسینؑ کی شہادت کا ذکر تھا اور اسی طرح یہ بھی تھا کہ شہادت کس طرح ہو گی اور کون آپ کو شہید کرے گا ،کون کون آپ کی مدد و نصرت کرے گا اور کون کون آپ کے ہمرکاب رہ کر شہید ہوگا یہ ذکر پڑھ کر امیرالمؤمنینؑ نے خود بھی گریہ کیا اور مجھ کو بھی خوب رلایا ۔مؤلف کہتے ہیں اگر اس کتاب میں گنجائش ہوتی تو میں یہاں امام حسینؑ کے کچھ مصائب ذکر کرتا ،لیکن موضوع کے لحاظ سے اس میں ان واقعات کا ذکر نہیں کیا جاسکتا ،لہذا قارئین میری کتب مقاتل کی طرف رجوع کریں ۔خلاصہ یہ کہ اگر کوئی شخص آج کے دن امام حسینؑ کے روضہ اقدس کے نزدیک رہ کر لوگوں کو پانی پلاتا رہے تو وہ اس شخص کی مانند ہے، جس نے حضرت کے لشکر کو پانی پلایا ہو اور آپ کے ہمرکاب کربلا میں موجود رہا ہو آج کے دن ہزار مرتبہ سورۂ توحید پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے، روایت میں ہے کہ خدائے تعالیٰ ایسے شخص پر نظر رحمت فرماتا ہے ،سید نے آج کے دن ایک دعا پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔جو دعائے عشرات کی مثل ہے ،بلکہ بعض روایات کے مطابق وہ دعائے عشرات ہی  ہے۔

شیخ نے عبداللہ بن سنان سے انہوں نے امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے کہ یوم عاشور کو چاشت کے وقت چار رکعت نماز و دعا پڑھنی چاہیے کہ جسے ہم نے اختصار کے پیش نظر ترک کر دیا ہے پس جو شخص اسے پڑھنا چاہتا ہو وہ علامہ مجلسی کی کتاب زادالمعاد میں ملاحظہ کرے۔ یہ بھی ضروری اور مناسب ہے کہ شیعہ مسلمان آج کے دن فاقہ کریں ، یعنی کچھ کھائیں پئیں نہیں ، مگر روزے کا قصد بھی نہ کریں عصر کے بعد ایسی چیز سے افطار کریں جو مصیبت زدہ انسان کھاتے ہیں مثلا دودھ یا دھی و غیرہ نیز آج کے دن قمیضوں کے گریبان کھلے رکھیں اور آستینیں چڑھا کر ان لوگوں کی طرح رہیں جو مصیبت میں مبتلا ہو تے ہیں یعنی مصیبت زدہ لوگوں جیسی شکل و صورت بنائے رہیں۔

علامہ مجلسی نے زاد المعاد میں فرمایا ہے کہ بہتر ہے کہ نویں اور دسویں محرم کا روزہ نہ رکھے کیونکہ بنی امیہ اور ان کے پیروکار ان دو دنوں کو امام حسینؑ کو قتل کرنے کے باعث بڑے بابرکت وحشمت تصور کرتے ہیں اور ان دنوں میں روزہ رکھتے تھے ،انہوں نے بہت سی وضعی حدیثیں حضرت رسول کی طرف منسوب کر کے یہ ظاہر کیا کہ ان دو دنوں کا روزہ رکھنے کا بڑا اجر و ثواب ہے حالانکہ اہلبیت سے مروی کثیر حدیثوں میں ان دودنوں اور خاص کر یوم عاشور کا روزہ رکھنے کی مذمت آئی ہے ،بنی امیہ اور ان کی پیروی کرنے والے برکت کے خیال سے عاشورا کے دن سال بھر کا خرچہ جمع کر کے رکھ لیتے تھے اسی بنا پر امام رضاؑ سے منقول ہے کہ جو شخص یوم عاشور اپنا دنیاوی کاروبار چھوڑے رہے تو حق تعالیٰ اس کے دنیا و آخرت سب کاموں کو انجام تک پہنچا دے گا ،جو شخص یوم عاشور کو گریہ و زاری اور رنج و غم میں گزارے تو خدائے تعالیٰ قیامت کے دن کو اس کیلئے خوشی و مسرت کا دن قرار دے گا اور اس شخص کی آنکھیں جنت میں اہلبیت کے دیدار سے روشن ہوں گی، مگر جو لوگ یوم عاشورا کو برکت والا دن تصور کریں اور اس دن اپنے گھر میں سال بھر کا خرچ لا کر رکھیں تو حق تعالیٰ ان کی فراہم کی ہوئی جنس و مال کو ان کے لئے بابرکت نہ کرے گا اور ایسے لوگ قیامت کے دن یزید بن معاویہ ،عبیداللہ بن زیاد اور عمرابن سعد جیسے ملعون جہنمیوں کے ساتھ محشور ہوں گے اس لئے یوم عاشور میں کسی انسان کو دنیا کے کاروبار میں نہیں پڑنا چاہیے اور اس کی بجائے گریہ و زاری ،نوحہ و ماتم اور رنج و غم میں مشغول رہنا چاہیے نیز اپنے اہل و عیال کو بھی آمادہ کرے کہ وہ سینہ زنی و ماتم میں اس طرح مشغول ہوں جیسے اپنے کسی رشتہ دار کی موت پر ہوا کرتے ہیں ۔آج کے دن روزے کی نیت کے بغیر کھانا پینا ترک کیئے رہیں اور عصر کے بعد تھوڑے سے پانی و غیرہ سے فاقہ شکنی کریں اور دن بھر فاقے سے نہ رہیں مگر یہ کہ اس پر کوئی روزہ واجب ہو جیسے نذر وغیرہ آج کے دن گھر میں سال بھر کیلئے غلہ و جنس جمع نہ کرے ،آج کے دن ہنسنے سے پرہیز کریں ، اور کھیل کود میں ہرگز مشغول نہ ہوں اور امام حسینؑ کے قاتلوں پر ان الفاظ میں ہزار مرتبہ لعنت کریں :

اَللّٰھُمَّ الْعَنْ قَتَلَةَ الْحُسَیْنِ

اے اللہ امام حسینؑ کے قاتلوں پر لعنت کر

مؤلف کہتے ہیں اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوم عاشور کا روزہ رکھنے کے بارے میں جو حدیثیں آئیں وہ سب جعلی اور بناوٹی ہیں اور ان کو جھوٹوں نے حضرت رسول کی طرف منسوب کیا ہے :

اَللَّھُمَّ انَّ ھٰذَا یُوْمُٗ تَبَرَکْتَ بِہِ بَنُوْ اُمَیَّةِ۔

اے اللہ ! یہ وہ دن ہے جس کو بنی امیہ نے بابرکت قرار دیا ہے۔

صاحب شفاء الصدور نے زیارت کے مندرجہ بالا جملے کے ذیل میں ایک طویل حدیث سے اس کی تشریح فرمائی ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی امیہ آج کے منحوس دن کو چند وجوہات کی بنا پر بابرکت تصور کرتے تھے۔

بنی امیہ نے آج کے دن آئندہ سال کے لئے غلہ و جنس جمع کر رکھنے کو مستحب جانا اور اس کو وسعت رزق اور خوشحالی کا سبب قراردیا ،چنانچہ اہلبیتؑ کی طرف سے ان کے اس زعم باطل کی باربار تردید اور مذمت کی گئی ہے۔

بنی امیہ نے آج کے دن کو روز عید قرار دیا اور اس میں عید کے رسوم جاری کیے ۔جیسے اہل و عیال کے لئے عمدہ لباس و خوراک فراہم کرنا ،ایک دوسرے سے گلے ملنا اور حجامت بنوانا وغیرہ لہذا یہ امور ان کے پیروکاروں میں عام طور پر رائج ہو گئے۔ انہوں نے آج کے دن کا روزہ رکھنے کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں وضع کیں اور اس دن روزہ رکھنے پر عمل پیرا ہوئے ۔ انہوں نے عاشور کے دن دعا کرنے اور اپنی حاجات طلب کرنے کو مستحب قرار دیا اس لئے اس سے متعلق بہت سے فضائل اور مناقب گھڑ لیے ،نیز آج کے دن پڑھنے کے لئے بہت سی دعائیں بنائیں اور انہیں عام کیا تاکہ لوگوں کو حقیقت واقعہ کی سمجھ نہ آئے چنانچہ وہ آج کے دن اپنے شہروں میں منبروں پر جو خطبے دیتے ،ان میں یہ بیان ہوا کرتا تھا کہ آج کے دن ہر نبی کے لئے شرف اور وسیلے میں اضافہ ہوا مثلا نمرود کی آگ بجھ گئی حضرت نوح کی کشتی کنارے لگی ،فرعون کا لشکر غرق ہوا حضرت عیسیٰ کو یہودیوں کے چنگل سے نجات حاصل ہوئی یعنی یہ سب امور آج کے دن وقوع میں آئے ۔تاہم ان کا یہ کہنا سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اس بارے میں شیخ صدوق نے جبلہ مکیہ سے نقل کیا ہے کہ میں نے میثم تمار سے سنا وہ کہتے تھے: خدا کی قسم! یہ امت اپنے نبیؐ کے فرزند کو دسویں محرم کے دن شہید کرے گی اور خدا کے دشمن اس دن کو بابرکت دن تصور کریں گے یہ سب کام ہو کر رہیں گے اور یہ باتیں اللہ کے علم میں آچکیں ہیں یہ بات مجھے اس عہد کے ذریعے سے معلوم ہے  جو مجھ کو امیرالمؤمنینؑ کی طرف سے ملا ہے جبلہ کہتے ہیں کہ میں نے میثم سے عرض کی کہ وہ لوگ امام حسینؑ کے روز شہادت کو کس طرح بابرکت قراردیں گے ؟ تب میثم رو پڑے اور کہا لوگ ایک ایسی حدیث وضع کریں گے جس میں کہیں گے کہ آج کا دن ہی وہ دن ہے کہ جب حق تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی توبہ قبول فرمائی۔

حالانکہ خدائے تعالیٰ نے ان کی توبہ ذی الحجہ میں قبول کی تھی وہ کہیں گے آج کے دن ہی خدا نے حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا حالانکہ خدانے ان کو ذی القعدہ میں شکم ماہی سے نکالا تھا وہ تصور کریں گے کہ آج کے دن حضرت نوحؑ کی کشتی جودی پر رکی ،جبکہ کشتی 18 ذی الحجہ کو رکی تھی وہ کہیں گے کہ آج کے دن ہی حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کیلئے دریا کو چیرا، حالانکہ یہ واقعہ ربیع الاول میں ہوا تھا خلاصہ یہ کہ میثم تمار کی اس روایت میں مذکورہ تصریحات وہ ہیں جو اصل میں نبوت و امامت کی علامات ہیں اور شیعہ مسلمانوں کے برسر حق ہونے کی روشن دلیل ہیں۔ کیونکہ اس میں ان باتوں کا ذکر ہے جو ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیں پس یہ تعجب کی بات ہے کہ اس واضح خبر کے باوجود ان لوگوں نے اپنے وہم وگمان کی بنا پر قراردی ہوئی جھوٹی باتوں کے مطابق دعائیں بنا لی ہیں جو بعض بے خبر اشخاص کی کتابوں میں درج ہیں کہ جن کو ان کی اصلیت کا کچھ بھی علم نہ تھا۔

ان کتابوں کے ذریعے سے یہ دعائیں عوام کے ہاتھوں میں پہنچ گئی ہیں، لیکن ان دعاؤں کا پڑھنا بدعت ہونے کے علاوہ حرام بھی ہے ان بدعت و حرام دعاؤں میں سے ایک یہ ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ، سُبْحانَ اللہِ مِلْئَ الْمِیزانِ، وَمُنْتَھَی الْعِلْمِ، وَمَبْلَغَ الرِّضا، وَزِنَةَ الْعَرْشِ۔

خدا کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے پاک ہے اللہ ترازو کے پورا ہونے علم کی آخری حدوں اور خوشنودی کی رسائی اور وزن عرش کے برابر۔

دو تین سطروں کے بعد یہ ہے کہ دس مرتبہ صلوات پڑھے پھر یہ کہے:

یَا قَابِلَ تَوْبَةِ آدَمَ یَوْمَ عاشُوراء یَارافِعَ إدْرِیسَ إلَی السَّماءِ یَوْمَ عاشُوراء یَا مُسَکِّنَ سَفِینَةِ نُوحٍ عَلَی الْجُودِیِّ یَوْمَ عاشُوراء، یَا غِیاثَ إبْراھِیمَ مِنَ النَّارِ یَوْمَ عاشُوراء۔

اے روز عاشور آدمؑ کی توبہ قبول کرنے والے اے عاشور کے دن ادریس ؑ کو آسمان پر لے جانے والے اے  روز عاشور نوحؑ کی کشتی کو جودی پہاڑ  پر ٹکانے والے اے یوم عاشور ابراہیم ؑ کو آگ سے نجات دینے والے.

اس میں شک نہیں کہ یہ دعا مدینے کے کسی ناصبی یا مسقط کے کسی خارجی نے یا ان کے کسی ہم عقیدہ نے گھڑی ہے ،اس طرح اس نے وہ ظلم کیا ہے جو بنی امیہ کے ظلم کو انتہاء تک پہنچا دیتا ہے یہ بیان کتاب شفاء الصدور کے مندرجات کا خلاصہ ہے جو یہاں ختم ہو گیا ہے۔

بہرحال یوم عاشور کے آخری وقت میں امام حسینؑ کے اہل حرم انکی دختران اور اطفال کے حالات و واقعات کو نظر میں لانا چاہیے کہ اس وقت میدان کربلا میں ان پر کیا بیت رہی ہے۔ جب کہ وہ دشمنوں کے ہاتھوں قید میں ہیں اور اپنی مصیبتوں میں آہ و زاری کررہے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ اہلبیت پر وہ دکھ اور مصیبتیں آئی ہیں جو کسی انسان کے تصور میں نہیں آسکتیں اور قلم دان کو لکھنے کا یارا نہیں ،کسی شاعر نے اس سانحہ کو کیا خوب بیان کیا ہے:

فاجِعۃٌ إنْ أَرَدْتُ أَکْتُبُھا ، مُجْمَلَةً ذِکْرَةً لِمُدَّکِرِ

یہ ایسی مصیبت ہے اگر اسے لکھوں کسی یاد کرنے والے کیلئے مجمل سی یاد دھانی یہ ایسی مصیبت ہے اگر اسے لکھوں کسی یاد کرنے والے کیلئے مجمل سی یاد دھانی

جَرَتْ دُمُوعَی فَحالَ حائِلُھا ، مَا بَیْنَ لَحْظِ الْجُفُونِ وَالزُّبُرِ

تو میرے آنسو نکل پڑتے ہیں اور میری آنکھوں اور اوراق کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں

وَقال قَلْبی بُقْیا عَلَیَّ فَلَا ، وَاللہِ مَا قَدْ طُبِعْتُ مِنْ حَجَرِ

میرا دل کہتا ہے رحم کر مجھ پر نہیں میں بخدا کو ئی پتھر کہ میری تو جان نکلے جارہی

بَکَتْ لَھَا الْأَرْضُ والسماء ، وَمَا بَیْنَھُما فی مَدامِعٍ حُمُرِ

اس پر روئے ہیں زمین و آسماں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے خون کے آنسو

?