شیخ و سّید نے صفوان سے روایت کی ہے کہ جمعہ کے دن محمد ابنِ علی حلبی امام جعفرصادقؑ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے تو عرض کی :مولا !مجھے کوئی ایسا عمل تعلیم فرما ئیں جو آج کے دن سب سے بہتر ہو حضرت نے فرمایا: میں نہیں سمجھتا کہ رسُول اللہؐ کے نزدیک کوئی حضرت فاطمہؑ سے بڑھ کر عزیز ہو ۔ پس حضرت رسولؐ نے جو تعلیم ان کو دی ہو اس سے افضل کیا چیز ہوگی؟ آنحضرتؐ نے جناب فاطمہؑ سے فرما یا کہ جو جُمعہ کی صبح کو درک کرے تو وہ غسل کرے اور چار رکعت نما ز ﴿دو دو کرکے﴾ اس طرح پڑھے کہ پہلی رکعت میں حمد کے بعد پچاس مرتبہ سُورہ توحید اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد پچاس مرتبہ سُورہ عادیات،تیسری رکعت میں حمد کے بعد پچاس مرتبہ سورہ زلزال اور چوتھی رکعت میں حمد کے بعد پچاس مرتبہ سُورہ نصر پڑھے ۔ یہ نزولِ قرآن کے سلسلے کا آخری سُورہ ہے جب نماز سے فارغ ہو جائے تو یہ دُعا پڑھے:
إلھِی وَسَیِّدِی مَنْ تَھَیَّأَ أَوْ تَعَبَّأَ أَوْ أَعَدَّ أَوِ اسْتَعَدَّ لِوِفَادَةِ مَخْلُوقٍ رَجَاءَ رِفْدِہِ وَفَوَائِدِہِ وَنَائِلِہِ وَفَوَاضِلِہِ وَجَوائِزِہِ
اے میرے خدا اور میرے سردا ر جو کوئی آمادہ و تیار ہو یا کمربستہ ہو یا اُٹھ کھڑا ہو کہ کسی مخلوق کی طرف انعام کی اُمید، فوائد اور بخشش کی طلب اور عطا وسخاوت کے حصول کیلئے جاسکے
فَإلَیْکَ یَا إلھِی کَانَتْ تَھْیِیَتِی وَتَعْبِیَتِی وَ إعْدَادِی وَاسْتِعْدَادِی رَجَاءَ فَوَائِدِکَ وَمَعْرُوفِکَ وَنَائِلِکَ وَجَوَائِزِکَ فَلا تُخَیِّبْنِی مِنْ ذلٰکَ
تو بھی اے میرے معبود! میری آمادگی میری تیاری میری کمربستگی اور میرا اُٹھنا تیری نعمتوں اور تیری عطا وبخشش اور انعام کی اُمید پر ہے تو اے خدا مجھے اس میں ناکام نہ کر
یَا مَنْ لاَ تَخِیبُ عَلَیْہِ مَسْأَلَۃُ السَّائِلِ، وَلاَ تَنْقُصُہُ عَطِیَّۃُ نَائِلٍ
اے وہ جو مانگنے والوں کے مانگنے سے تنگ نہیں ہوتا اور جسکے ہاں عطاء و سخاء سے کمی نہیں آتی
فَإنِّی لَمْ آتِکَ بِعَمَلٍ صَالِحٍ قَدَّمْتُہُ، وَلاَ شَفَاعَةِ مَخْلُوقٍ رَجَوْتُہُ، أَتَقَرَّبُ إلَیْکَ بِشَفَاعَتِہِ إلاَّ مُحَمَّداً وَأَھْلَ بَیْتِہِ صَلَوَاتُکَ عَلَیْہِ وَعَلَیھِمْ
میں تیرے حضور اپنے کسی عمل خیر کی و جہ سے نہیں آیا جو میں نے آگے بھیجا ہو نہ میں کسی مخلوق کی سفارش لایا ہوں کہ اسکے ذریعے تیرا تقرب حاصل کروں ہاں محمد ؐوآلِ محمدؐ کہ ان پر تیری رحمتیں ہوں
أَتَیْتُکَ أَرْجُو عَظِیمَ عَفْوِکَ الَّذِی عُدْتَ بِہِ عَلَی الْخَطَّائِینَ عِنْدَ عُکُوفِھِمْ عَلَی الْمحَارِمِ
انکی سفارش کے ساتھ تیرے پاس تیرے عظیم عفو کی امید لے کر آیا ہوں جسکے ذریعے تُو نے خطاکاروں کو معاف فرمایا
فَلَمْ یَمْنَعْکَ طُولُ عُکُوفِھِمْ عَلَی الْمحَارِمِ أَنْ جُدْتَ عَلَیْھِمْ بِالْمَغْفِرَةِ
جبکہ وہ گناہوں میں غلطاں تھے اور انکا ایک عرصے تک گناہوں میں رہنا ان پر تیرے کرم اور بخشش میں مانع نہیں ہوسکا
وَأَنْتَ سَیِّدِی الْعَوَّادُ بِالنَّعْمَاءِ وَأَنَا الْعَوَّادُ بِالخَطَاءِ أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِہِ الطَّاھِرِینَ
اور اے میرے سردار تو بار بار نعمتیں دینے والا اور میں بار بار خطا کرنے والا ہوں میں حضرت محمدؐ اور انکی پاک آل ؑ کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں
أَنْ تَغْفِرَلِی ذَنْبِیَ الْعَظِیمَ، فَإنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الْعَظِیمَ إلاَّ الْعَظِیمُ
کہ میرے بڑے گناہ کو معاف فرما کیونکہ عظیم گناہ کو عظیم ہستی ہی معاف کرسکتی ہے
یَا عَظِیمُ یَا عَظِیمُ یَا عَظِیمُ یَا عَظِیمُ یَا عَظِیمُ یَا عَظِیمُ یَا عَظِیمُ
اے بزرگ،اے عظیم، اے برتر، اے بزرگ،اے عظیم، اے برتر، اے عظیم
مؤلف کہتے ہیں کہ سّید ابنِ طا ؤس نے جمال الا سبوع میں ائمہ میں سے ہر ایک کی نماز و دُعا نقل کی۔ پس مناسب ہوگا کہ یہاں ان نمازوں اور دُعاؤں کا ذکرکردیا جائے۔