• AA+ A++

جاننا چاہیے کہ نماز فجر کی تعقیبات دیگر تمام نمازوں کی بہ نسبت زیادہ ہیں اور اس نماز کی خصوصی فضیلت کے بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں. حضرت امیر المومنین علیه السلام سے منقول ہے کہ تلاش رزق میں روئے زمین پر سفر کرنے کے مقابل نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک ذکر الٰہی میں مشغول رہنا زیادہ کامل ہے حضرت رسول اکرم(ص) سے منقول ہے کہ جو شخص طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک اپنے مصلّے پر بیٹھ کر تعقیبات میں مشغول رہے تو خدا اسے آتش جہنم سے محفوظ رکھے گا۔ امام محمد باقر علیه السلام سے منقول ہے کہ شیطان اپنے دن کے لشکر کو طلوع صبح صادق سے طلوع آفتاب تک اور اپنے رات کے لشکر کو غروب آفتاب سے سرخی زائل ہونے تک زمین پر پھیلا دیتا ہے لہذا ان دو ساعتوں میں خدا کو بہت یاد کرو کہ ان دو وقتوں میں شیطان انسانوں کو غافل کر دیتا ہے، صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ خراسان میں امام رضا علیه السلام جب نماز فجر پڑھتے تو طلوع آفتاب تک اپنے مصلّے پر بیٹھ کر تعقیبات میں مشغول رہتے تھے اس کے بعد ایک تھیلی آپ(ع) کے پاس لائی جاتی جس میں مسواک ہوتے اور ان میں سے ایک ایک مسواک استعمال فرماتے تھے. پھر آپ(ع) تھوڑا سا کندر چباتے اور اس کے بعد قرآن مجید لے کر تلاوت میں لگ جاتے. حضرت رسول(ص) خدا سے منقول ہے کہ جو شخص طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک تعقیبات میں مشغول رہے تو خداے تعالیٰ اس کیلئے حج کا ثواب لکھ دیتا ہے. حدیث قدسی میں ہے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے: اے فرزند آدم! تو مجھے صبح کے بعدایک ساعت اور عصر کے بعدایک ساعت تک یاد کیا کر تاکہ میں تیری تمام مشکلیں آسان اور حاجتیں پوری کردوں نماز فجر کی بعض مخصوص تعقیبات یہ ہیں۔

گناہوں سے بخشش کی دعا

﴿۱﴾ ابن بابویہ(رح) نے معتبر سند کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص نماز فجر کے بعد ستر مرتبہ

اَسْتَغْفِرُ اللہَ رَبِّی وَاَتُوْبُ اِلِیْہِ

اپنے رب اللہ سے بخشش مانگتا اور توبہ کرتا ہوں

کہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ستر ہزار گناہ معاف کر دیتا ہے، ایک اور روایت کے مطابق سات سو گناہ معاف کر دیتا ہے۔

شیطان کے چال سے بچانے کی دعا

﴿۲﴾ ابن بابویہ(رح) نے صحیح اور معتبر اسناد کے ساتھ حضرت امیر المومنین (ع) سے روایت کی ہے کہ جو شخص نماز فجر کے بعد گیارہ مرتبہ سورہ

قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَد

پڑھے تو شیطان کی چاہت کے برخلاف اس دن میں اس کا کوئی گناہ نہیں لکھا جائے گا. بلد الامین میں حضرت رسول(ص) خدا سے روایت ہے کہ جوشخص روزانہ دس مرتبہ سورہ

قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَد

پڑھے تو اس دن اس کے گناہ نہیں لکھے جائیں گے ہر چند کہ شیطان اس بارے میں کتنی ہی کوشش کرے۔

ناگوار امر سے بچانے والی دعا

﴿۳﴾شیخ کلینی(رح) نے صحیح سند کے ساتھ امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ جو شخص نماز فجر کے بعد ایک سو مرتبہ

مَا شَاءَ اللہُ کَانَ لاَ حَوْلَ وَ لاَ قُوَّةَ إلاَّ بِاللہِ العَلِیِّ العَظِیمِ

جو خدا چاہے وہی ہوتا ہے نہیں کوئی طاقت و قوت مگر وہ خداے بلند و بزرگ سے ہے

کہے تو اس روز اسے کوئی ناگوار امر در پیش نہیں ہوگا، شیخ طوسی(رح) اور دیگر علما نے بھی دعائوں کی کتابوں میں اس کا ذکر کیا ہے۔

بہت زیادہ اہمیت والی دعا

﴿۴﴾ کفعمی(رح) اور دیگر علما نے امام محمد باقر(ع) سے روایت کی ہے کہ جو شخص نماز فجر کے بعد زوال آفتاب کے وقت اور بعد از عصردس دس مرتبہ سورہ اِنّا اَنْزَلْناہُ فِیْ لَیْلَةِ القَدْر

پڑھے تو اس کا ثواب لکھنے والے تیس سال تک مشقت میں پڑے رہیں گے نیز آنجناب(ع) ہی سے مروی ہے کہ جو شخص اس سورہ کو طلوع فجر کے بعد سات مرتبہ پڑھے تو اس کے لیے فرشتوں کی ستر صفیں ستر مرتبہ صلوات پڑھتی ہیں اور ستر مرتبہ اس کے لیے رحمت طلب کرتی ہیں۔ امام محمد تقی(ع) سے اس شخص کے لیے بہت زیادہ ثواب منقول ہے جو دن رات میں چھہتر مرتبہ سورہ اِنّا اَنْزَلْناہُ فِیْ لَیْلَةِ القَدْر

پڑھے اور اس کی ترتیب یوں ہے: طلوع فجر کے بعد اور نماز فجر سے پہلے سات مرتبہ، نماز فجر کے بعد دس مرتبہ زوال آفتاب کے بعد اور نافلہ ظہر سے پہلے دس مرتبہ ، نافلہ ظہر کے بعد اکیس مرتبہ،نماز عصر کے بعد دس مرتبہ، نماز عشاء کے بعد سات مرتبہ اور سونے کے وقت گیارہ مرتبہ. اس کے جملہ ثواب میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہزار فرشتے خلق فرماتا ہے جو اس شخص کے لیے چھتیس ہزار سال تک اس عمل کا ثواب لکھتے رہتے ہیں۔

دعائے عافیت

﴿۵﴾ ابن بابویہ(رح) اور دیگر علماء نے معتبر سند کے ساتھ امام محمد باقر(ع) سے روایت کی ہے کہ جو شخص ہر روز نماز فجر کے بعد دس مرتبہ

سُبْحانَ اللہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہٖ وَلاَ حَوْل وَلاَ قُوَّةَ إلاَّ بِاللہِ 

پاک ہے بزرگ اللہ اسی کیلئے حمدہے اور نہیں کوئی طا قت و قوت مگر جو بلند و بزرگ تر خدا سے ہے

کہے تو حق تعالیٰ اس کو عافیت عطا فرمائے گا یعنی اسے دیوانگی، برص، جذام، پریشانی، چھت تلے دبنے اور بڑھا پے کی فضول گوئی سے بچائے گا۔

تین مصیبتوں سے بچانے والی دعا

﴿۶﴾بلد الامین میں حضرت امیر المومنین(ع) سے مروی ہے کہ رسول(ص) خدا نے فرمایا: جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی موت میں ڈھیل دے دشمنوں پر غلبہ عطا کرے اور بدتر موت سے بچائے تو اسے صبح و شام پابندی کیساتھ یہ دعا پڑھنا چاہیئے اور وہ اس طرح کہ تین مرتبہ کہے :

سُبْحانَ اللہِ مِلْأَ الْمِیزانِ وَمُنْتَھَی الْعِلْمِ وَمَبْلَغَ الرِّضا وَ زِنَةَ الْعَرْشِ وَسَعَةَ الْکُرْسِیِّ۔

اللہ پاک ہے جو بہترین وزن کرنے والا، علم و دانش کامرکز ،رضائوں کی حد عرش کاوزن اور کرسی کی وسعت ہے ۔

اورتین مرتبہ کہے:

الْحَمْدُ لِلہِ مِلْأَ الْمِیزانِ وَمُنْتَھَی الْعِلْمِ وَمَبْلَغَ الرِّضا وَزِنَةَ الْعَرْشِ وَسَعَةَ الْکُرْسِیِّ

حمد ہے اﷲ کیلئے جو بہترین وزن کرنے والا، علم و دانش کامرکز ،رضائوں کی حد عرش کاوزن اور کرسی کی وسعت ہے

اورتین مرتبہ کہے :

لاَ إلہَ إلاَّ اللہُ مِلْأَ الْمِیزَانِ وَمُنْتَھَی الْعِلْمِ وَمَبْلَغَ الرِّضا وَزِنَةَ الْعَرْشِ،وَسَعَةَ الْکُرْسِیِّ

نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے جو بہترین وزن کرنے والا، علم و دانش کا مرکز ،رضاؤں کی حد عرش کا وزن اور کرسی کی وسعت ہے

اورتین مرتبہ کہے

اللہُ اَکْبَرُ مِلْأَ الْمِیزَانِ وَمُنْتَھَی الْعِلْمِ وَمَبْلَغَ الرِّضَا وَزِنَةَ الْعَرْشِ وَسَعَةَ الْکُرْسِیِّ۔

اللہ بزرگ تر ہے جو بہترین وزن کرنے والا، علم و دانش کا مرکز ،رضائوں کی حد عرش کاوزن اور کرسی کی وسعت ہے ۔

شر شیطان سے محفوظ رہنے کی دعا

﴿۷﴾سیدا بن طاووس(رح) نے معتبر سند کے ساتھ امام علی رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ جو شخص نماز فجر کے بعد سو مرتبہ یہ پڑھے:

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ لاَ حَوْلَ وَلاَقُوَّةَ إلاَّ بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ

خدا کے نام سے جو بڑارحم کرنے والامہربان ہے نہیں کوئی طاقت و قوت مگر جو خدائے بلند و بزرگ سے ہے

تو اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کے اتنا قریب پہنچ جائے گا کہ آنکھ کی سیاہی اس کی سفیدی کے اتنی قریب نہیں ہے. معتبر اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق(ع) اور امام موسیٰ کاظم(ع) سے منقول ہے کہ جو شخص فجر اور مغرب کی نماز کے بعد کسی سے بات کرنے اور اپنی جگہ سے حرکت سے پہلے یہ دعا سات مرتبہ پڑھے تو ستر قسم کی بلائیں اس سے دور ہوجائیں گی جن میں کم سے کم یہ ہے کہ وہ برص، جذام ، شر شیطان اور شر حاکم سے محفوظ رہے گا بعض روایات میں اسے پڑھنے کی تعداد تین مرتبہ اور بعض میں دس مرتبہ بتائی گئی ہے گویا کم از کم تعداد تین مرتبہ اور زیادہ سے زیادہ سو مرتبہ ہے تا ہم جتنا زیادہ مرتبہ پڑھے اتنا ہی زیادہ ثواب حاصل کرے گا۔

رزق میں برکت کی دعا

﴿۸﴾شیخ احمد بن فہد اور دیگر علما نے روایت کی ہے کہ ایک شخص امام موسیٰ کاظم(ع) کی خدمت میں آیا اور شکایت کی کہ میرا کاروبار بند ہوچکا ہے جدھر کا رُخ کرتا ہوں ناکام رہتا ہوں اورجو حاجت پیش آتی ہے وہ پوری نہیں ہوتی. اس پر حضرت نے فرمایا کہ نماز فجر کے بعد دس مرتبہ یہ پڑھے:

سُبْحانَ اللہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہٖ أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَأَسْأَلُہُ مِنْ فَضْلِہ

پاک ہے خدائے بزرگ و برتر اپنی حمد کے ساتھ خدا سے بخشش ما نگتا ہوں اور اس کا فضل چاہتا ہوں۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے تھوڑے ہی عرصہ تک یہ دُعا پابندی کے ساتھ پڑھی تھی کہ کچھ لوگ کسی گاؤں سے آئے اور کہنے لگے کہ تمہارا ایک رشتہ دار فوت ہو گیا ہے اور سوائے تمہارے اس کا کوئی وارث نہیں ہے. پس اس طرح مجھ کو بہت سامال وزر مل گیا. اور اب میں کسی کا محتاج نہیں ہوں کتاب کافی اور مکارم میں روایت ہوئی ہے کہ ہلقام نامی ایک شخص حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا مجھے کوئی ایسی دعا تعلیم فرمائیں جو میری دنیا اور آخر ت کے لئے جامع و یکساں مفید ہو اور آسان بھی ہو. حضرت نے اسے یہی مذکورہ بالا دُعا تعلیم فرمائی اور کہا کہ اسے نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک پڑھا کرو، اس نے یہ دعا پابندی کے ساتھ پڑھنا شروع کردی تو اس کے حالات بہتر ہوگئے۔

قرضوں کی ادائیگی کی دعا

﴿۹﴾ عیاشی نے عبداللہ بن سنان سے روایت کی ہے کہ میں امام جعفر صادق علیه السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے فرمایا: آیا میں ایسی دعا تعلیم کروں کہ جب تم اسے پڑھو تو اللہ تمہارے قرضے ادا کرے اور تمہارے حالات بہتر ہو جائیں؟میں نے عرض کیا: مجھے تو اس دعا کی سخت ضرورت ہے، تب آپ(ع) نے فرمایا کہ نماز فجر کے بعد یہ پڑھا کرو :

تَوَکَّلْتُ عَلَی الْحَیِّ الْقَیُّومِ الَّذِی لاَ یَمُوتُ وَالْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَداً وَلَمْ یَکُنْ لَہ ُشَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَم ْیَکُنْ لَہُ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرْہُ تَکْبِیراً

میں اس زندہ و پائندہ پر بھر وسا کرتا ہوں جس کو موت نہیں حمد اﷲ ہی کیلئے ہے جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا نہ حکومت میں کوئی اسکا شریک ہے اور نہ وہ کمزور ہے کہ کوئی اس کامددگار ہو اس کی بہت بڑی بڑائی کرو

 اَللّٰھُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُؤْسِ وَالْفَقْرِ وَمِنْ غَلَبَةِ الدَّیْنِ وَالسُّقْمِ وَأَسْأَلُکَ أَنْ تُعِینَنِی عَلَی أَداءِ حَقِّکَ إلَیْکَ وَ إلَی النَّاسِ

اے معبود میں تیری پناہ لیتا ہوں تنگدستی بے مائیگی قرض کی زیادتی اور مرض و بیماری سے اورسوال کرتا ہوں کہ تو اپنے حق کی ادائیگی میں میری مدد فرما جو تیرے اور لوگوں کیلئے ہے۔

شیخ طوسی(رح) اور دیگر علماء کی روایت کے مطابق دعا یوں ہے :

وَمِنْ غَلَبَةِ الدَّیْنِ فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَأَعِنِّی عَلَی أَداءِ حَقِّک إلَیْکَ وَ إلَی النَّاسِ

اور قرض کی زیادتی سے پس رحمت فرما محمد(ص) اور ان کی آل(ع) پر اور اپنے حق کی ادائیگی میں میری مدد فرما جو تیرے اور لوگوں کے لیے ہے

تنگدستی اور بیماری سے دوری کی دعا

﴿10﴾ کفعمی(رح) نے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ سے تنگدستی پریشانی اور بیماری کی شکایت کی تو آنحضرت(ص) نے فرمایا :یہ دُعا صبح و شام دس مرتبہ پڑھا کرو چنانچہ اس نے تین روز تک باقاعدگی سے یہ دعا پڑھی تو اس کے تمام حالات سدھر گئے شیخ طوسی(رح) اوردیگر علما نے یہ دُعا فجر کی تعقیبات میں ذکر کی ہے اور وہ دُعا یہ ہے :

لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إلاَّ بِاللہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی الْحَیِّ الَّذِی لاَ یَمُوتُ وَالْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ صَاحِبةً وَ لاَ وَلَداً وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ وَ لَمْ یَکُنْ لَہُ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرْہُ تَکْبِیراً

کوئی طاقت وقوت نہیں مگر جو اللہ سے ہے میں اس زندہ پر بھر وسا کرتا ہوں جسے موت نہیں حمد اللہ کیلئے ہے جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا نہ حکومت میں کوئی اس کا شریک ہے نہ وہ کمزور ہے کہ اس کاکوئی مددگار ہو اور اس کی بہت بڑائی کرو۔

خدا سے عہد کی دعا

﴿۱۱﴾ شیخ طوسی(رح) ،کفعمی(رح) اور دیگر علما نے حضرت رسول(ص) خدا سے روایت کی ہے آنحضرت(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا: آیا تم اس بات سے عاجز ہوکہ ہر صبح و شام خداے تعالیٰ سے عہد لے لو؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم کس طرح عہد لیں؟ آپ(ص) نے فرمایا کہ یہ دُعا پڑھا کرو کیونکہ جو شخص یہ دعا پڑھے تو اس پر مہر لگادی جاتی ہے اور اسے عرش الٰہی کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے. پس جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی آواز دے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جنہوں نے خدا سے عہد لیا ہے تا کہ وہ عہد انہیں دیا جائے اور اسی کے ساتھ وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ شیخ طوسی(رح) نے یہ دعا نماز فجر کی تعقیبات میں ذکر کی ہے اور وہ دعا یہ ہے:

اَللّٰھُمَّ فاطِرَ السَّمَواتِ وَالْاَرْضِ عالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَةِ الرَّحْمٰنَ الرَّحِیمَ أَعْھَدُ إلَیْکَ فِی ھَذِہِ الدُّنْیَا

اے معبود! اے آسمانوں اور زمین کے خالق، اے نہاں و عیاں کے جاننے والے بڑے رحم والے مہربان میں اس دنیا میں تیرے ساتھ عہد کرتا ہوں

أَنَّکَ أَنْتَ اللہُ لاَ  إلہَ إلاَّ أَنْتَ وَحْدَکَ لاَ شَرِیکَ لَکَ وَأَنَّ مُحَمَّداً صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم عَبْدُکَ وَرَسُولُکَ

یقیناً تو وہ اللہ ہے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو یکتا ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے بندے اور رسول ہیں

 اَللّٰھُمَّ فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَلاَ تَکِلْنِی إلَی نَفْسِی طَرْفَةَ عَیْنٍ أَبَداً وَلاَ إلی أَحَدٍ مِنْ خَلْقِکَ فَإنَّکَ إنْ وَکَلْتَنِی إلَیْھَا تُباعِدْنِی مِنَ الْخَیْروَتُقَرِّبْنِی مِنَ الشَّرِّ

پس اے معبود رحمت نازل فرما محمد(ص) اور ان کی آل(ع) پر اور تو مجھے پلک جھپکنے تک بھی کبھی میرے نفس کے حوالے نہ کراور نہ مخلوق میں سے کسی کے سپرد کر پس اگر تو نے مجھے ان کے حوالے کیا تو مجھے خیر ونیکی سے دور اور شرو بدی کے قریب کر دے گا.

 أَیْ رَبِّ لاَ أَثِقُ إلاَّ بِرَحْمَتِکَ فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ طَیِّبِیْنَ وَاجْعَلْلِی عِنْدَکَ عَھْداً تُؤَدِّیہ إلَیَّ یَوْمََ الْقِیامَةِ إنَّکَ لا تُخْلِفُ الْمِیعادَ۔

اے پروردگار تیری رحمت کے سوا مجھے کسی پر بھر وسا نہیں پس رحمت فرما محمد(ص) اور ان کی پاک اولاد(ع) پر اور میرا عہد اپنے پاس رکھ جوتو روز قیامت مجھے واپس کرے بے شک تو وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔

جہنم کی آگ سے بچنے کی دعا

﴿12﴾عدّۃ الدّاعی میں امام جعفر صادق(ع) سے روایت ہے کہ جو شخص نماز فجر کے بعد کسی سے بات کرنے سے پہلے یہ کہے:

رَبِّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍوآل محمد و َأَھْلِ بَیْت محمد

پروردگارا! محمد(ص) اور ان کے اہل بیت پر رحمت فرما۔

تو حق تعالیٰ اس کے چہرے کو آتش جہنم سے دور رکھے گا۔ ابن بابویہ(رح)نے معتبر سند کے ساتھ ثواب الاعمال میں روایت کی ہے کہ نماز فجر کے بعد سو مرتبہ کہا کرو:

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

﴿اے معبود! محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت نازل فرما﴾

تا کہ خدا تعالیٰ تمہیں جہنم سے محفوظ رکھے۔ ایک اور روایت کے مطابق کسی سے بات کرنے سے پہلے سو مرتبہ کہو:

یَا رَبِّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَ أَعْتِقْ رَقَبَتِی مِنَ النَّارِ

﴿اے پروردگار! محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اورمیری گردن جہنم سے آزاد کر دے﴾

﴿سجدہ شکر ﴾

جب تعقیبات نماز سے فارغ ہوتو سجدہ شکر بجالائے، اس بات پر علماء شیعہ کا اجماع ہے کہ سجدہ شکر کسی نعمت کے حاصل ہونے یا کسی مصیبت کے دور ہونے کے وقت بجالایا جائے اور اس کی بہترین قسم نماز کے بعد ادائے نماز کی یہ توفیق ملنے پر سجدہ شکر کی ادائیگی ہے. امام محمد باقر(ص) بہ سند معتبر ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے والد بزرگوار امام زین العابدین(ع) جب بھی خدا کی کسی نعمت کو یاد کرتے تو اس کے شکرانے میں سجدہ شکر بجالاتے، جو بھی آیہ سجدہ تلاوت فرماتے تو سجدہ بجالاتے، کسی شر سے خوف کھاتے اور خدا اسے دور کر دیتا تو بھی سجدہ شکر ادا فرماتے، جب بھی واجب نماز سے فارغ ہوتے تو سجدہ بجالاتے اور جب دو آدمیوں میں صلح کرواتے تو اس کے لیے بھی سجدہ شکر ادا کرتے. آنجناب(ع) کے تمام اعضائے سجدہ پر سجدے کے نشان موجود تھے، اسی لیے آپ(ع) کو ’’سجاد‘‘کہا جاتا ہے. صحیح سند کے ساتھ امام جعفر صادق(ع) سے روایت ہے کہ جو شخص علاوہ نماز کے کسی نعمت کے ملنے پر خدا کے لیے سجدہ شکر بجالائے تو اللہ تعالیٰ اس کے نام دس نیکیاں لکھ دیتا ہے، دس برائیاں مٹا دیتا ہے اور بہشت میں اس کے دس درجے بلند کر دیتا ہے دیگر بہت سی معتبر اسناد کے ساتھ آنجناب(ع) ہی سے منقول ہے کہ بندے کا خدا سے نزدیک تر مقام اس وقت ہوتا ہے جب وہ حالت سجدہ میں ہو اور گریہ کررہا ہو۔ ایک اور صحیح حدیث میں فرماتے ہیں کہ سجدہ شکر ہر مسلمان پر واجب ہے اور اس سے نماز مکمل ہوتی ہے، پروردگار عالم راضی ہوتا ہے اور ملائکہ کو ایسی عبادت پرتعجب ہوتا ہے. اس لیے کہ جب بندہ نماز ادا کر لیتاہے اور اس کے بعد سجدہ شکر بجالاتا ہے تو خداوند عالم اس کے اور فرشتوں کے درمیان سے پردے ہٹا دیتا ہے، پھر کہتا ہے کہ اے میرے فرشتو! میرے بندے کی طرف نگاہ کرو کہ اس نے میرا فرض ادا کر دیا ہے میرے عہد کو پورا کر دیا ہے. اس کے بعد اس بات پر میرے لیے سجدہ شکر اداکیا ہے کہ میں نے اسے اس نعمت سے نوازا ہے اے میرے فرشتو! اب تم ہی بتاؤ کہ اسے کیا انعام دیا جاے؟ وہ کہتے ہیں خداوندا! اپنی رحمت، پھر فرماتا ہے اور کیا دوں؟ وہ عرض کرتے ہیں اپنی جنت پھر پوچھتا ہے اسے اور کیا دوں؟ وہ عرض کرتے ہیں: اس کے مشکل امور کی کفایت اور حاجات کی برآوری۔ اسی طرح خداے تعالیٰ سوال کرتا جاتا ہے اور ملائکہ جواب دیتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ملائکہ تھک جاتے ہیں اور کہتے ہیں: پروردگارا! ہمیں اب کچھ معلوم نہیں اس پر خالق اکبر فرماتا ہے: میں بھی اس کا اسی طرح شکریہ ادا کرتاہوں جس طرح اس نے میرا شکر ادا کیا ہے اور میں روز قیامت اپنے فضل اور عظیم رحمت کے ساتھ اس کی طرف نظر کروں گا صحیح سند کے ساتھ امام جعفر صادق(ع) سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم(ع) کو اس لیے اپنا خلیل بنایا کہ وہ زمین پر بہت زیادہ سجدے کیا کرتے تھے، ایک اور معتبر حدیث میں فرماتے ہیں: جب بھی تم خدا کی کسی نعمت کو یاد کرو اور تم ایسی جگہ ہو کہ جہاں مخالفین تمھیں دیکھ نہ رہے ہوں تو اپنا رخسار زمین پر رکھ کر اس کی نعمت کا شکر ادا کرو۔ اگر مخالفین وہاں موجود ہوں اور تم سجدہ نہیں کر سکتے تو اپنا ہاتھ پیٹ کے نچلے حصّے پر رکھ کر تواضع کے طور پر جھک جاؤ تا کہ مخالفین یہ سمجھیں کہ تمہیں درد شکم ہوگیا ہے. بہت سی روایات میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ(ع) سے فرمایا: جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کس لیے منتخب کیا اور ساری مخلوق میں سے کلیم بنایا ہے؟ موسیٰ(ع) نے عرض کیا: پروردگارا! میں نہیں جانتا !اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس لیے کہ میں نے اپنی ساری مخلوقات کے حالات دیکھے اور تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا کہ جس کا نفس میرے سامنے تمہارے نفس سے زیادہ عاجز و درماندہ ہو کیونکہ جب تم نماز سے فارغ ہوتے ہو تو اپنے دونوں رخسار خاک پر رکھ دیتے ہو. سند موثق کے ساتھ امام علی رضا(ع) سے منقول ہے کہ واجب نماز کے بعد سجدہ شکر اس امر پر خدا کے شکر کی ادائیگی ہے کہ اس نے اپنے بندے کو یہ توفیق دی ہے کہ وہ اس کا عائد کردہ فرض ادا کر سکے. اس سجدے میں کم از کم ذکر یہ ہے کہ تین مرتبہ ’’شکراً لِلہِ‘‘کہا جائے۔ راوی نے پوچھا کہ

شکراً لِلہِ

‘کے کیا معنی ہیں ؟ امام(ع) نے فرمایا اس کے معنی یہ ہیں کہ میں یہ سجدہ اس لیے کر رہا ہوں کہ اللہ نے مجھے اس عمل کی توفیق دی ہے کہ میں اس کے لیے کھڑا ہوا اور اپنا فرض ادا کیا، میں یہ سجدہ اسی بات کے شکرانے کے طور پر کر رہا ہوں. خدا کا شکر مزید نعمت اور اطاعت کی توفیق کا موجب ہوتا ہے اور اگر نماز میں کوئی ایسی خامی رہ گئی ہو جو نافلہ کے ذریعے پوری نہ ہو پائی ہو تو وہ اس سجدے کے ذریعے پوری ہوجاتی ہے۔

﴿سجدہ شکر کی کیفیت﴾

سجدہ شکر کی کیفیت یہ ہے کہ اسے جس طرح بھی بجا لایا جائے، ادا ہو جاتا ہے اور احوط یہ ہے کہ انسان زمین پر ہو اور نماز کے سجدے کی مانند سات اعضا پر سجدہ کرے. نیز اپنی پیشانی اس چیز پر رکھے جس پر نماز میں پیشانی رکھنا صحیح ہوتا ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ سجدہ نماز کے بر عکس ہاتھوں کو زمین پر دراز کر دے اور پیٹ کو زمین سے ملادے اور سنت ہے کہ پہلے پیشانی کو زمین پر رکھے پھر دائیں رخسار کو اس کے بعد بائیں رخسار کو زمین پر رکھے، پھر پیشانی کو دوبارہ زمین پر رکھے اور یہی وجہ ہے کہ اس سجدے کو شکر کے دو سجدے کہا جاتا ہے بظاہر یہ سجدہ ذکر کے بغیر بھی ادا ہو جاتا ہے لیکن سنت ہے کہ ذکر بھی کرے اور بہتر ہے کہ ان اذکار اور دعاؤں کے ذریعے ذکر کیا جائے جو بعد میں نقل کی جائیں گی اور مستحب ہے کہ اس سجدے کو طول دیا جائے. چنانچہ منقول ہے کہ امام موسیٰ کاظم(ع) طلوع آفتاب کے بعد سجدے کو اس قدر طول دیتے کہ زوال آفتاب ہوجاتا اور عصر کے بعد سجدے کو اس قدر طول دیتے کہ مغرب کا وقت ہوجاتا ایک اور حدیث میں ہے کہ آنجناب(ع) دس سال تک روزانہ طلوع آفتاب سے زوال آفتاب تک سجدے میں رہا کرتے تھے. صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ امام علی رضا (ع) اتنی اتنی دیر تک سجدے میں پڑے رہتے کہ مسجد کے سنگریزے آپ(ع) کے پسینے سے تر ہوجاتے. اور آپ(ع) اپنے دونوں رخسار زمین پر رکھے رہتے. رجال کشی میں مذکور ہے کہ فضل بن شاذان، ابن ابی عمیر کے پاس آئے تو وہ حالت سجدہ میں تھے اور انہوں نے اسے بہت طول دیا، جب انہوں نے سجدے سے سر اٹھایا تو ان کے اس سجدے کے طولانی ہونے کا ذکر کیا گیا تو ابن ابی عمیر نے کہا: اگر تم لوگ جمیل بن دراج کے سجود کو دیکھتے تو میرے سجدے کو طولانی نہ سمجھتے، اس کے بعد کہا: ایک روز میں جمیل بن دراج کے پاس گیا تو انہوں نے بہت ہی طویل سجدہ کیا، جب انہوں نے سجدے سے سر اٹھایا تو میں نے کہا: آپ نے تو بہت ہی طویل سجدہ کیا ہے انہوں نے جواب دیا: اگر تم معروف بن خرتوذ کے سجدے کو دیکھتے تو میرے اس سجدے کو مختصر ہی سمجھتے. فضل بن شاذان ہی روایت کرتے ہیں کہ حسن بن علی بن فضال عبادت کے لیے صحرا میں چلے جاتے اور اپنے سجدے کو اتنا طول دیتے ہیں کہ صحرا کے پرندے کپڑا سمجھ کران کی پشت پر آن بیٹھتے، وحشی جانوران کے اردگرد چلتے پھرتے رہتے اور ان سے کسی قسم کی وحشت محسوس نہ کرتے. نیز روایت ہوئی ہے کہ علی بن مہزیار طلوع آفتاب کے ساتھ ہی سجدہ الٰہی میں چلے جاتے اور جب تک اپنے ایک ہزار ﴿مومن﴾بھائیوں کے لیے دعا نہ کر لیتے سجدے سے سر نہ اٹھاتے اور طویل سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانی پریوں محراب پڑچکے تھے جیسے اونٹ کے زانوؤں پر ہوتے ہیں. روایت ہوئی ہے کہ ابن ابی عمیر نماز فجر کے بعد سجدہ شکر میں سر رکھتے اور ظہر تک نہیں اٹھاتے تھے. افضل یہ ہے کہ سجدہ شکر تمام تعقیبات کے بعد اور نوافل سے پہلے کیا جائے۔ اکثر علماء کہتے ہیں کہ سجدہ شکر نماز مغرب کے نوافل کے بعد بجالایا جائے اور بعض دیگر علماء کہتے ہیں کہ سجدہ شکر نوافل سے پہلے کیا جائے. ظاہراً دونوں صورتیں بہترہیں اور اس کا نوافل سے پہلے بجالانا افضل ہے. البتہ حمیری(رح) نے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ سے روایت کی ہے کہ اگر دونوں طرح سے ادا کیا جائے تو شاید زیادہ بہتر ہو. اب رہ گئیں سجدہ شکر میں پڑھی جانے والی دعائیں تو وہ بہت زیادہ ہیں. ان میں سے چند ایک آسان ترین ہیں اور وہ یہ ہیں۔ ﴿۱﴾ معتبر سند کے ساتھ امام علی رضا(ع) سے منقول ہے کہ اگر تم چاہو تو سو مرتبہ کہا کرو شکراً شکراً

اور چاہو تو سو مرتبہ کہا کرو و عفواً عفواً 

اور عیون اخبار الرضا میں رجاء بن ابی ضحاک روایت کرتے ہیں کہ امام علی رضا (ع) خراسان میں جب نماز ظہر کی تعقیبات سے فارغ ہوتے تو سر سجدے میں رکھ کر سو مرتبہ کہے:

شکراً لِلہِ۔ (خدا کا شکر ہے۔)

اور جب عصر کی تعقیبات سے فارغ ہوتے تو سجدے میں سو مرتبہ کہے:

حمداً لِلہِ۔ ﴿خدا کی حمد ہے ﴾

﴿۲﴾ شیخ کلینی(رح) معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیه السلام سے روایت کرتے ہیں کہ بندہ اس وقت اپنے خدا کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے جب وہ حالت سجدہ میں ہواور اسے پکارے پس جب سجدہ شکر میں جائے تو کہے :

یَا رَبَّ الْاَرْبابِ، وَیَا مَلِکَ الْمُلُوکِ وَ یَا سَیِّدَ السَّاداتِ وَ یَا جَبَّار الْجَبابِرَةِ وَ یَا إلٰہَ الاَْلِھَةِ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

اے پروردگاروں کے پروردگار! اے بادشاہوں کے بادشاہ! اے سرداروں کے سردار! اے جابروں کے جابراور اے معبودوں کے معبود! تو سرکار محمد(ص)و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت فرما.

اب اپنی حاجات طلب کرے اور کہے :

فَإنِّی عَبْدُکَ ناصِیَتِی فِی قَبْضَتِکَ۔ ( بے شک میں تیرا بندہ ہوں میری مہار تیرے ہاتھ میں ہے.)

﴿۳﴾ شیخ کلینی(رح) نے موثق سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیه السلام سے روایت کی ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا کہ ایک رات میں نے سنا کہ میرے والد گرامی مسجد میں حالت سجدہ میں روتے ہوئے یہ دعا پڑھ رہے تھے:

سُبْحانَکَ اَللّٰھُمَّ أَنْت رَبِّی حَقّاً حَقّاً سَجَدْتُ لَکَ یَارَبِّ تَعَبُّداً وَرِقّاً اَللّٰھُمَّ إنَّ عَمَلِی ضَعِیفٌ فَضاعِفْہُ لِی

اے معبود تو پاک ہے تو میرا پکا سچا رب ہے یا رب میں نے تجھے عبادت وبندگی کیلئے سجدہ کیا ہے اے معبود بیشک میرا عمل کمزور ہے اے معبود اس دن اسے میرے لیے دگنا کردے

 اَللّٰھُمَّ قِنِی عَذابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبادَکَ، وَتُبْ عَلَیَّ إنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ

اے معبود مجھے اپنے عذاب سے بچانا جب تو لوگوں کو زندہ کریگا اورمیری توبہ قبول فرما کہ بیشک تو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے.

﴿۴﴾شیخ کلینی(رح)نے معتبر سند کیساتھ امام موسیٰ کاظم(ع) سے روایت کی ہے کہ آنجناب(ع) سجدے میں یہ دعا پڑھتے تھے۔

أَعُوذُ بِکَ مِنْ نَارٍ حَرُّھَا لاَ یُطْفیٰ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ نارٍ جَدِیدُھَا لاَ یَبْلی وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ نارٍ عَطْشانُھَا لاَ یُرْوی وَأَعُوذُ بِکَ ٍ مِنْ نَارٍ مَسْلُوْبُھَا لَا یُکْسیٰ

خدایا اس آگ سے تیری پناہ لیتا ہوں جو بجھے گی نہیں تیری پناہ لیتا ہوں اس آگ سے جو ہمیشہ نئی ہے پرانی نہ ہوگی تیری پناہ لیتا ہوں اس آگ سے جس میں پیا سے کبھی سیراب نہ ہوں گے اور تیری پناہ لیتا ہوں اس آگ سے جس میں برہنوں کو لباس نہ ملے گا

.﴿۵﴾شیخ کلینی(رح)نے معتبر سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ ایک شخص اما م جعفر صادق(ع) خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شکایت کی کہ میری ایک ام ولد لونڈی ہے جو بیماررہتی ہے. حضرت نے فرمایا: اس سے کہو کہ ہر واجب نماز کے بعد سجدہ شکر میں یہ کہا کرے:

یَا رَؤُوفُ یَا رَحِیمُ یَا رَبِّ یَا سَیِّدِی (اے مہربان اے رحم والے اے رب اے میرے سردار)

پھر اپنی حاجات طلب کرے

﴿۶﴾بہت ہی معتبر روایات میں منقول ہے کہ امام جعفر صادق(ع) اور امام موسیٰ کاظم(ع) سجدہ شکر میں بکثرت یہ کہا کرتے تھے۔

أَسْأَلُکَ الرَّاحَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ وَالْعَفْوَ عِنْدَ الْحِسابِ۔

خدایا میں تجھ سے موت کے وقت راحت اور حساب کے وقت درگزر کا سوالی ہوں

﴿۷﴾صحیح سند کیساتھ منقول ہے کہ امام جعفر صادق(ع) سجدہ شکر میں یہ کہا کرتے تھے۔

سَجَدَ وَجْھِیَ اللَّئِیمُ لِوَجْہِ رَبِّیَ الْکَرِیمِ۔ (میرے پست چہرے نے تیری کریم ذات کو سجدہ کیا ہے)

﴿۸﴾ بعض معتبر کتابوں میں امیر المومنین علیه السلام سے مروی ہے کہ اللہ کے نزدیک بہترین کلام یہ ہے کہ سجدے میں تین مرتبہ کہیں:

إنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی۔ (یقیناً میں نے خود پر ظلم کیا ہے پس مجھے بخش دے.)

﴿۹﴾ جعفریات ﴿مجموعہ اقوال حضرت امام جعفر صادق علیه السلام ﴾ میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ رسول(ص) خدا جب سجدے میں سر رکھتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:

اَللّٰھُمَّ مَغْفِرَتُکَ أَوْسَعُ مِنْ ذُنُوبِی وَ رَحْمَتُکَ أَرْجَی عِنْدِی مِنْ عَمَلِی فَاغْفِرْ لِی ذُنُوبِی یَا حَیّاً لاَ یَمُوتُ۔

اے معبود! تیری بخشش میرے گناہوں سے زیادہ وسیع ہے اور تیری رحمت میرے عمل کی نسبت زیادہ امید افزا ہے پس میرے گناہ بخش دے اے وہ زندہ جو مرے گا نہیں

﴿۰۱﴾ قطب راوندی نے امام جعفر صادق علیه السلام سے روایت کی ہے کہ جب تمہیں کوئی سخت مصیبت درپیش ہو یا انتہائی غم و اندوہ لاحق ہو تو زمین پر سجدے میں جا کر کہو :

یَا مُذِلَّ کُلِّ جَبَّارٍ یَا مُعِزَّ کُلِّ ذَلِیلٍ، قَدْ وَ حَقِّکَ بَلَغَ مَجْھُودِی فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّد وَ فَرِّجْ عَنِّی۔

اے ہر جبار کو ذلیل کرنے والے ہرذلیل کو عزت دینے والے تیرے حق کی قسم کہ میں بے بس ہوگیا پس تومحمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور مجھے کشادگی عطا فرما .

عدۃ الداعی میں آپ(ع) ہی سے روایت ہے کہ جب کسی شخص کو کوئی مصیبت آپڑے یا کوئی مشکل پیش آجائے یا کوئی رنج و غم پریشان کرنے لگے تو وہ اپنے گھٹنوں تک اور کہنیوں تک کپڑا ہٹائے اور ان کو زمین پر لگا دے اپنا سینہ زمین سے لگا دے اور خدا سے اپنی حاجات طلب کرے۔ ﴿۱۱﴾ ابن بابویہ(رح) نے معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ جب بندہ سجدے میں تین مرتبہ یہ کہے :

یَا اللہُ یَا رَبّاہُ یَا سَیِّداہُ

اے اللہ اے پروردگار اے سردار

تو خدا تعالیٰ جواب میں کہتا ہے لبیک ﴿ہاں﴾ اے میرے بندے مجھ سے اپنی حاجات بیان کر۔ مکارم الاخلاق میں ہے کہ جب کوئی شخص سجدے میں

یَا رَبَّاہُ یَا سَیِّداہُ

اے پروردگار اے سردار

کہتا ہے یہاں تک کہ اس کی سانس رک جائے تو خدا فرماتا ہے کہ اے بندے اپنی حاجات بیان کر۔

﴿12﴾مکارم الاخلاق میں امام جعفر صادق علیه السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا کا گزر ایک شخص کے پاس سے ہوا جو سجدے میں کہہ رہا تھا۔

یَا رَبِّ مَاذا عَلَیْکَ أَنْ تُرْضِیَ عَنِّی کُلَّ مَنْ کانَ لَہُ عِنْدِی تَبِعَۃٌ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِی ذُنُوبِی وَ أَنْ تُدْخِلَنِی الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِکَ فَإنَّمَا عَفْوُکَ عَنِ الظَّالِمِینَ، وَ أَنَا مِنَ الظَّالِمِینَ، فَلْتَسَعْنِی رَحْمَتُکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔

اے پروردگارتجھے کیا فرق پڑے گا کہ تو ہر ایسے شخص کو مجھ سے راضی کردے جس کا کوئی حق میرے ذمہ ہے اور یہ کہ تو میرے گناہ معاف کر دے اور اپنی رحمت سے مجھ کو جنت میں داخل کر دے کیونکہ یقینا تو ظالموں کو معاف کرتا ہے اور میں بھی ظالموں میں سے ہوں تو تیری رحمت مجھ پر چھا جائے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

اس وقت آنحضرت(ص) نے اس شخص سے فرمایا کہ اپنا سر اٹھا لو کہ تمہاری دعا قبول ہو گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے اس پیغمبر(ص) کی دعا پڑھی ہے جو قوم عاد میں آئے تھے. مؤلف کہتے ہیں: ہم نے مسجد کوفہ اور مسجد زید کے اعمال میں بعض دعائیں نقل کی ہیں جو سجدے میں پڑھی جاتی ہیں۔ شیخ طوسی(رح) نے مصباح المتہجد میں سجدہ شکر کے بیان میں ذکر کیا ہے، مستحب ہے کہ انسان اپنے بھائیوں کے لیے سجدے میں یہ دعا پڑھے:

اَللّٰھُمَّ رَبَّ الْفَجْرِ وَ اللَّیَالِی الْعَشْرِ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَاللَّیْلِ إذا یَسْرِ وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ وَ إلہَ کُلِّ شَیْئٍ وَخَالِقَ کُلِّ شَیْئٍ، وَمَلِکَ کُلِّ شَیْئٍ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ، وَ افْعَلْ بِی و بِفُلانٍ وَ فُلانٍ مَا أَنْتَ أَھْلُہُ وَلاَ تَفْعَلْ بِنَا مَا نَحْنُ أَھْلُہُ فَإنَّکَ أَھْلُ التَّقْوَی وَأَھْلُ الْمَغْفِرَةِ

اے معبود ! ایک فجر، دس راتوں شفع، وتر اور رات کے پروردگار جب وہ گزر جائے اے ہر چیز کے پروردگار، اے ہر چیز کے معبود اے ہر چیز کے پیدا کرنے والے اور اے ہر چیز کے مالک! سرکار محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پررحمت نازل فرما اور میرے ساتھ اور فلاں فلاں کے ساتھ وہ برتاؤ کر جس کا تو اہل ہے اور ہمارے ساتھ وہ برتاؤ نہ کر جس کے ہم اہل ہیں کیونکہ یقیناً تو بچانے اور بخش دینے کا اہل ہے۔

جب سر سجدے سے اٹھاے تو اپنے ہاتھوں کو مقام سجدہ سے مس کرے اور پھر انہیں اپنے چہرے کے بائیں طرف پھیرے  پھر پیشانی پر اور پھر چہرے کی دائیں طرف تین مرتبہ پھیرے اور ہر بار یہ دعا پڑھے:

اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ لاَ إلہَ إلاَّ أَنْتَ، عَالِمُ الْغَیْب وَالشَّھَادَةِ الرَّحْمنُ الرَّحِیمُ اَللّٰھُمَّ أَذْھِبْ عَنِّی الھَمَّ وَالْحَزَنَ وَالْغِیَرَ وَالْفِتَنَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ۔

اے معبود حمد تیرے ہی لیے ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہی حاضر و غائب کا جاننے والا بڑے رحم والا مہربان ہے اے معبود! مجھ سے ہر طرح کی ایذا یعنی غم تکلیفیں اوربلائیں دور کر دے خوہ اوہ ظاہر یاہیں باطن ہیں.

?