شیخ جلیل و ثقہ جعفر بن قولویہ قمی(رح) نے عمرو بن عثمان رازی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے امام کا ظم علیه السلام سے سنا ہے کہ جو شخص ہماری زیارت کرنے سے قاصر ہو تو وہ ہمارے شیعوں میں سے صالح مومنوں کی زیارت کرے پس اس کیلئے وہی ثواب ہوگا جو ہماری زیارت کا ثواب ہے جو شخص ہمارے ساتھ صلہ و نیکی کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو وہ ہمارے محبوں نیکوکار انسانوں کے ساتھ صلہ و نیکی کرے تاکہ اسکو وہی ثواب ملے جو ہمارے ساتھ صلہ و نیکی کرنے پر ملتا ہے انہوں نے صحیح سند کے ساتھ محمد بن احمد بن یحییٰ اشعری سے یہ روایت بھی کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا: میں علی بن بلال کے ہمراہ راہ مکہ میں واقعہ مقام ’’فید‘‘ پر گیا اور ہم دونوں محمد بن اسماعیل ابن بزیع کی قبر پر پہنچے تب علی بن بلال نے مجھے کہا کہ اس صاحب قبر نے مجھ سے امام رضاؑ کا فرمان نقل کیا تھا کہ جو شخص اپنے مومن بھائی کی قبر پر آئے اور اسکی قبر پر ہاتھ رکھ کر سات بار سورہ’’انا انزلناہ‘‘ پڑھے تو وہ قیامت میں بڑے خوف ﴿فزع اکبر﴾ سے بچا رہیگا۔ ایک اور روایت میں بھی یہی طریقہ نقل ہوا ہے مگر اس میں یہ بات زائد ہے کہ وہ شخص قبر پر ہاتھ رکھے ہوئے قبلہ رخ ہو کر بیٹھے۔ مولف کہتے ہیں فزع اکبر سے محفوظ رہنے کا جو ذکر روایت میں ہے شاید اس میں وہ سورہ کی تلاوت کرنے والا شخص مراد ہے اور روایت کا ظاہر بھی یہی ہے تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے وہ صاحب قبر مراد ہو‘ جیسا کہ وہ حدیث اس کی تائید کرتی ہے جو سید بن طاؤوس نے نقل کی ہے اور وہ آگے ذکر ہوگی کامل الزیارات میں معتبر سند کے ساتھ منقول ہے کہ عبدالرحمان بن ابی عبداللہ نے امام جعفر صادق علیه السلام سے عرض کی کہ میں مومنین کی قبروں پر ہاتھ کس طرح رکھوں تو آپ نے اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے زمین پر رکھا جبکہ آپ قبلہ کی طرف رخ کیے ہوئے تھے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ عبداللہ بن سنان نے امام جعفر صادق علیه السلام کی خدمت میں عرض کی کہ مومنوں کی قبروں پر سلام کس طرح کرنا چاہیے تو حضرت نے فرمایا کہ یوں کہا کرو:
اَلسَّلَامُ عَلَی أَھْلِ الدِّیارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ أَنْتُمْ لَنا فَرَطٌ وَنَحْنُ إنْ شاءَ اللہُ بِکُمْ لاحِقُونَ۔
سلام ہو اہل قبر ستان میں سے مومنوں اور مسلمانوں پر آپ لوگ ہمارے پیش رو ہیں اوران شاء اللہ ہم بھی آپ سے آ ملیں گے ۔
امام حسین علیه السلام سے روایت ہے کہ جو شخص قبرستان میں جائے وہ وہاں جا کر یہ کہے:
اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الْاَرْواحِ الْفانِیَةِ وَالْاَجْسادِ الْبالِیَةِ وَالْعِظامِ النَّخِرَةِ الَّتِی خَرَجَتْ مِنَ الدُّنْیا
اے معبود تو ہی پرودگار ہے ان گزری ہوئی روحوں کا ان بوسیدہ جسموں کا اور ان گلی ہوئی ہڈیوں کا جو دنیا سے باہرنکل چکی ہیں
وَھِیَ بِکَ مُؤْمِنَۃٌ أَدْخِلْ عَلَیْھِمْ رَوْحاً مِنْکَ وَسَلاماً مِنِّی۔
لیکن یہ چیزیں تجھ پر ایمان رکھتی ہیں ان کو اپنی طرف سے آسائش دے اور میرا سلام پہنچا۔
خدا اس شخص کے آدمؑ سے قیامت تک کے انسانوں کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھے گا ۔ امیر المومنین علیه السلام سے منقول ہے کہ جب کوئی شخص قبر ستان میں جائے تو یہ کہے:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ، اَلسَّلَامُ عَلَی أَھْلِ لاَ إلہَ إلاَّ اللہُ مِنْ أَھْلِ لاَ إلہَ إلاَّ اللہُ
خدا کے نام سے شروع جو رحم والا مہربان ہے سلام ہو لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں پر ان کا جو لا الہ الا اللہ پڑھتے ہیں
یَا أَھْلَ لاَ إلہَ إلاَّ اللہُ بِحَقِّ لاَ إلہَ إلاَّ اللہُ ، کَیْفَ وَجَدْتُمْ قَوْلَ لاَ إلہَ إلاَّ اللہُ مِنْ لاَ إلہَ إلاَّ اللہُ
اے لا الہ الا اللہ پر ایمان رکھنے والوں لا الہ الا اللہ کے حق کے واسطے ہمیں بتاؤ کہ تم نے عقیدہ لا الہ الا اللہ کیسے پایا لا الہ الا اللہ سے
یَا لاَ إلہَ إلاَّ اللہُ بِحَقِّ لاَ إلہَ إلاَّ اللہُ، اغْفِرْ لِمَنْ قَالَ لاَ إلہَ إلاَّ اللہُ
اے لا الہ الا اللہ والی ذات بحق لا الہ الا اللہ کے بخش دے ان کو جنہوں نے پڑھا لا الہ الا اللہ
وَاحْشُرْنا فِی زُمْرَةِ مَنْ قالَ لاَ إلہَ إلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللهِ ۔
اور محشور کر ہمیں اس گروہ میں جنہوں نے پڑھا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ۔
پس حق تعالیٰ اس شخص کے لیے پچاس سال کی عبادت کا ثواب لکھے گا نیز اس کے اور اس کے ماں باپ کے پچاس سال کے گناہ محو کر دے گا۔ایک اور روایت میں ہے کہ قبر ستان میں پڑھنے کیلئے بہتر کام یہ ہے کہ جب وہاں سے گزرے تو کہے:
اَللَّھُمَّ وَلِّھُمْ مَا تَوَّلُوْا وَاحْشُرْھُمْ مَعْ مَنْ اَحَبُّوا۔
اے معبود ان کے دوستوں کو دوست رکھ اور انہیں ان کے ساتھ اٹھا جن سے وہ محبت رکھتے تھے۔
سید بن طاؤوس(رح) نے مصباح الزائر میں فرمایا ہے جب کوئی شخص قبور مومنین کی زیارت کا ارادہ کرے تو بہتر ہے کہ وہ جمعرات کا دن ہو یا کوئی اور دن ہو تو ان کی زیارت کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قبلہ رخ ہو کر قبر پر ہاتھ رکھے اور کہے:
اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ غُرْبَتَہُ وَ صِلْ وَحْدَتَہُ وَ آنِسْ وَحْشَتَہُ وَ آمِنْ رَوْعَتَہُ
اے معبود اس کی تنہائی پر رحم فرما بے کسی میں اس کے ساتھ رہ، خوف میں اس کا ہمدم بن،
وَأَسْکِنْ إلَیْہِ مِنْ رَحْمَتِکَ رَحْمَةً یَسْتَغْنِی بِھَا عَنْ رَحْمَةِ مَنْ سِواکَ وَأَلْحِقْہُ بِمَنْ کانَ یَتَوَلاَّہُ۔
اسے ڈر سے امان دے اور اپنی رحمت کے سائے میں قرار دے ایسی رحمت جس سے وہ سوائے تیرے کسی رحمت کا محتاج نہ رہے اور اسے ان سے ملا دے جن کا وہ پیرو تھا۔
اس کے بعد سات مرتبہ سورۃ ’’انا انزلناہ‘‘ پڑھے: قبور مومنین کی زیارت اور اس کے ثوب میں فضیل سے ایک حدیث مروی ہے کہ جو شخص کسی مومن کی قبر پر سات بار سورۃ ’’انا انزلناہ‘‘ پڑھے تو خدائے تعالیٰ اس قبر پر ایک فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس کے قریب عبادت کرتا رہتا ہے۔ پس حق تعالیٰ اس فرشتے کی عبادت کا ثواب اس قبر میں مدفون انسان کے نام سے لکھے گا اور جب وہ قبر سے اٹھے گا تو قیامت کے ہول و خوف میں سے کوئی خوف اسے لاحق نہ ہو گا یہاں تک کہ خدا اسے اس فرشتے کے عمل کی بدولت داخل جنت کر دے گا۔ سات مرتبہ سورۃ ’’انا انزلناہ‘‘ پڑھنے کے بعد سورہ حمد سورہ فلق سورہ ناس سورہ اخلاص او رآیۃ الکرسی میں سے ہر ایک تین تین مرتبہ پڑھے نیز قبور مومنین کی زیارت کے بارے میں محمد بن مسلم سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں نے امام جعفر صادق علیه السلام کی خدمت میں گزارش کی کہ آیا ہم فوت شدگان کی زیارت کیا کریں آپ نے فرمایا ہاں پھر میں نے کہا کہ کیا ان کو اس کی خبر بھی ہوتی ہے کہ ہم ان کی زیارت کرنے آتے ہیں ؟ حضرت نے فرمایا کہ بخدا ان کو اس کی خبر ہوتی ہے اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں اور وہ تم لوگوں کو پہچانتے ہیں میں نے کہا کہ ہم ان کی زیارت کرتے وقت کیا پڑھیں؟ آپ نے فرمایا یہ دعا پڑھا کرو:
اَللّٰھُمَّ جافِ الْاَرْضَ عَنْ جُنُوبِھِمْ وَصاعِدْ إلَیْکَ أَرْواحَھُمْ وَلَقِّھِمْ مِنْکَ رِضْواناً
اے معبود زمین کو اس کے پہلوؤں سے خالی کر دے ان کی روحوں کو اپنی طرف بلند کر ان کو اپنی خوشنودی سے بہرہ ور فرما
وَأَسْکِنْ إلَیْھِمْ مِنْ رَحْمَتِکَ مَا تَصِلُ بِہِ وَحْدَتَھُمْ وَتُؤْنِسُ بِہِ وَحْشَتَھُمْ إنَّکَ عَلَی کُلِّ شَیْئ قَدِیرٌ۔
اور اپنی رحمت کو ان کے ساتھ کر دے تاکہ تو ان کی تنہائی دور کردے اور ان کے خوف کو دور کر دے بے شک تو ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
مردوں کے لیے ہدیہ بھیجنا
اس کے بعد سید (رح) نے فرمایا کہ جب کوئی شخص مومنوں کی قبور پر جائے تو سورہ قل ھواللہ احد گیارہ مرتبہ پڑھے اور ان کو ہدیہ کرے کیونکہ روایت میں آیا ہے کہ یقیناً خدائے تعالیٰ اس کے عوض مردوں کی تعداد کے برابر ثواب عطا فرماتا ہے کامل الزیارات میں امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ طلوع آفتاب سے پہلے مردوں کی زیارت کی جائے تو وہ سنتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں اور اگر سورج نکلنے کے بعد زیارت کی جائے تو وہ سنتے ہیں مگر جواب نہیں دیتے۔ دعوات راوندی میں حضرت رسول(ص) سے ایک حدیث روایت ہوئی ہے جس میں رات کے وقت زیارت قبور کے نا پسندیدہ ہونے کا ذکر ہے جیسا کہ آنحضرت(ص) نے ابوذر غفاری سے فرمایا کبھی بھی رات کے وقت قبور مومنین کی زیارت نہ کرو نیز شیخ شہید(رح) کے مجموعہ میں بھی حضرت رسول(ص) سے نقل ہوا ہے کہ کوئی شخص کسی میت کی قبر پر تین بار یہ دعائیہ جملہ کہے تو خدائے تعالیٰ قیامت کے دن ضرور اس سے عذاب دور کر دے گا اور وہ دعائیہ جملہ یہ ہے:
اَللَّھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ اَنْ لاَ تُعَذِّبَ ھَذَا الْمَیِّتَ۔
اے معبود میں سوال کرتا ہوں تجھ سے محمد(ص) و آل محمدؑ کے واسطے کہ اس قبر والے پر عذاب نہ کر۔
جامع الاخبار میں بعض صحابہ رسول(ص) سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا اپنے مردوں کیلئے ہدیہ دیا کرو۔ ہم نے عرض کی کہ ان کیلئے ہدیہ کیا ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا کہ ان کیلئے ہدید صدقہ اور دعاہے نیز فرمایا کہ مومنوں کی روحیں ہر جمعہ کو آسمان دنیا پر اپنے اپنے گھروں کے سامنے آتی ہیں اور درد بھری آواز میں روتے ہوئے پکار کر کہتی ہیں اے میرے اہل و اولاد اے میرے ماں باپ اور رشتہ داروں۔ جو مال ہمارے ہاتھوں میں تھا اس میں سے ہم پر مہربانی کرو کہ اس مال کا حساب اور عذاب تو ہم پر ہے مگر اس سے فائدہ اور لوگ حاصل کر رہے ہیں اسی طرح ہر ایک روح اپنے خویش و اقرباء سے فریاد کرتی اور کہتی ہے کہ ایک روپیہ یا ایک روٹی یا ایک کپڑا خدا کی راہ میں دے کر ہم پر مہربانی کرو تاکہ خدا بھی آپ پر مہربانی کریں۔ اس کے بعد حضرت رسول(ص) نے گریہ فرمایا اور ہم بھی گریہ کرنے لگے جب کہ آپ جوش گریہ کی وجہ سے بات نہ کر سکتے تھے اس وقت آپ(ص) نے فرمایا کہ یہ تمہارے دینی بھائی ہیں جن کو مٹی نے ڈھانپ رکھا ہے کہ وہ اس سے پہلے نعمت و مسرت سے جی رہے تھے۔ ان کی جانوں پر جو عذاب اور سختی وارد ہو رہی ہے اس کے باعث وہ فریاد کرتے اور کہتے ہیں کہ ہائے افسوس کیاہی اچھا ہوتا کہ ہم اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے تو آج تم لوگوں کے محتاج نہ ہوتے اور پھر وہ حسرت و ندامت کے ساتھ واپس ہو جاتے ہیں۔ بنا بریں آپ(ص) نے ہدایت فرمائی کہ مردوں کے لیے صدقہ دینے میں جلدی کیا کرو نیز آنحضرت(ص)نے فرمایا ہے کہ کسی میت کیلئے جو صدقہ دیا جائے اسے ایک فرشتہ نورکے طشت میں رکھ لیتا ہے کہ جس کی شعائیں ساتویں آسمان تک پہنچتی ہیں پس وہ فرشتہ یہ طشت لے کر اس میت کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر آواز دیتا ہے۔
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ۔
سلام ہو تم پر اے قبروں میں رہنے والو۔
تمہارے اہل و عیال نے تمہارے لیے یہ ہدیہ بھیجا ہے تب وہ ہدیہ لے کر قبر میں رکھ لیتا ہے اور اس کی بدولت وہاں اس کے لیٹنے کی جگہ زیادہ کھلی ہو جاتی ہے اس کے بعد حضرت(ص) نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص کسی میت کے لیے صدقہ دے کر اس پر مہربانی کرے تو خود اس کے لیے خدائے تعالیٰ کی طرف سے احد کے پہاڑ کے برابر اجرلکھا جائے گا اور روز قیامت وہ عرش الٰہی کے سایہ میں ہو گا حالانکہ اس دن سوائے عرش کے کہیں سایہ نہ ہو گا معلوم ہوا کہ اس صدقے کے وسیلے سے زندہ و مردہ دونوں ہی نجات حاصل کر تے ہیں یہ حکایت بھی بیان ہوئی ہے کہ کسی نے خراسان کے گورنر کو خواب میں دیکھا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ میرے لیے صدقہ کرو اگرچہ وہ ایسی چیز ہو جو تم اپنے کتوں کے آگے پھینکتے ہو کہ مجھے اس کی بھی ضرورت ہے۔
مردوں سے عبرت حاصل کرنا
واضح رہے کہ مومنین کی قبروں کی زیارت کے بہت زیادہ ثواب اور بہت سے فوائد کے علاوہ یہ عبرت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے اس سے دنیا میں زہد و قناعت اور آخرت کی طرف میلان اور توجہ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے پس ایک عاقل انسان کو قبرستان میں جا کر عبرت حاصل کرنا چاہیے تاکہ دنیا کی رغبت اس کے دل میں کم ہو دنیا کے مال ودولت کی مٹھاس اس کے حلق میں کڑوی معلوم ہو اور وہ دنیا کے فنا ہونے اور اس میں تغیر حال کے پہلو پر غور و فکر کرے کہ تھوڑے عرصے کے بعد میں بھی ان اہل قبور میں شامل ہو جاؤں گا تب وہ عمل سے عاجز اور دوسروں کیلئے سامان عبرت ہو گا اس مضمون کونظامی نے بڑے عبرت آموز انداز میں بیان کیا ہے۔
زنده دلی از صف افسردگان
رفت به همسایگی مردگان
پشت ملامت به عمارات کرد
روی ارادت به مزارات کرد
حرف فنا خواند ز هر لوح خاک
روح بقا جست ز هر روح پاک
گشتی ازین سگ منشان تیز تگ
همچو تگ آهوی وحشی ز سگ
کارشناسی پی تفتیش حال
کرد ازو بر سر راهی سؤال
کین همه از زنده رمیدن چراست
رخت سوی مرده کشیدن چراست
گفت بلندان به مغاک اندراند
پاک نهادان ته خاک اندراند
مرده دلانند به روی زمین
بهر چه با مرده شوم همنشین
همدمی مرده دهد مردگی
صحبت افسرده دل افسردگی
زیر گل آنان که پراکنده اند
گر چه به تن مرده به جان زنده اند
مرده دلی بود مرا پیش ازین
بسته هر چون و چرا پیش ازین
زنده شدم از نظر پاکشان
آب حیاتست مرا خاکشان
ترجمہ اشعار :
ایک زندہ دل غمگین لوگوں کے ہجوم میں اہل قبور کا ہمسایہ بننے کے لیے جا رہا تھا اس نے ہر پاک کتبے پر فنا کا پیغام پڑھا اور اس کی روح نے ہر پاک روح سے بقا کا راز دریافت کیا۔ ایک مرد عارف نے حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے راہ چلتے میں اس سے پوچھاان زندہ لوگوں کو چھوڑ کے جانے کا کیا سبب ہے اور مرے ہوئے لوگوں کی طرف روانگی کی کیا وجہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ بد باطن لوگ تاریکی کے گڑھے میں پڑے ہیں اور پاک دل اشخاص زیر خاک سو رہے ہیں۔روئے زمین پر مردہ لوگوں کا اجتماع ہے پھر کس لیے میں ان سیاہ دل افراد کی صحبت میں رہوں۔ جب کہ مردہ دل ہم نشیں سے مردہ دلی ملتی ہے اور رنجیدہ آدمی سے رنج و غصہ حاصل ہوتا ہے مگر وہ افراد جو زیر زمین بکھرے ہوئے ہیں اگر چہ ان کے جسم مردہ ہیں تو بھی ان کے دل زندہ ہیں۔ آج سے قبل مجھ پر مردہ دلی چھائی ہوئی تھی اور میں کیوں اور کیسے کے چکر میں پھنسا ہوا تھا۔ تاہم آج میں ان اہل قبور کی ہمسائیگی میں آ کر ان کی نگاہ پاک سے زندہ دل بن گیا ہوں گویا ان کی خاک میرے لیے آب حیات ہے۔
اختتام مفاتیح عرض مؤلف
رُوِیَ اَنَّہُ اَوْحَی اللہُ تَعَالیٰٓ اِلیٰ عِیسیٰ یَا عِیسیٰ ھَبْ لِی مِنْ عَیْنِکَ الدُّمُوعَ وَمِنْ قَلْبِکَ الْخُشُوعَ
روایت ہوئی ہے کہ خدائے تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ(ع) کی طرف وحی فرمائی: اے عیسیٰ(ع) مجھے دے اپنی آنکھوں سے آنسو اور اپنے قلب سے خوف۔
وَاکْحَلْ عَیْنَیْکَ بِمِیلِ الْحُزْنِ إذا ضَحِکَ الْبَطَّالُونَ وَقُمْ عَلَی قُبُورِ الْاََمْواتِ
رنج و غم کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنا جب کہ بدکار لوگ ہنستے ہیں اور مردوں کی قبروں پر جاکے کھڑا ہو
فَنادِھِمْ بِالصَّوْتِ الرَّفِیعِ لَعَلَّکَ تَأْخُذُ مَوْعِظَتَکَ مِنْھُمْ وَقُلْ إنِّی لاحِقٌ بِھِمْ فِی اللاَّحِقِینَ۔
پس ان کو بلند آواز سے پکار کر شاید تو ان سے نصیحت وعبرت حاصل کر لے نیز خود سے کہہ کہ میں بھی جلد ان سے جا ملوں گا۔
اس مرحلے پر وہ تمام اعمال و عبادات اور ادعیہ و ز یارات تکمیل کو پہنچیں جن کا اس با برکت کتاب میں درج کیا جانا ضروری تھا۔ چنانچہ یہ کتاب آج بروز اتوار 10 ذی القعدہ 1344ھ کی شام کو مکمل ہوئی ہے کہ جو ثامن الائمہ امام رضاؑ کی شب ولادت ہے۔ چونکہ آج ہی مجھے اپنی والدہ محترمہ کی وفات کا اطلاع نامہ موصول ہوا ہے لہذا جو برادران ایمانی اس کتاب سے مستفید ہوں گے ان سے التماس ہے کہ وہ ان مرحومہ مغفورہ کیلئے دعائے مغفرت کریں نیز میرے لیئے اور میرے والد مکرم کیلئے ہماری زندگی میں اور بعد از وفات بھی دعا خیر فرمائیں۔ والحمد لِله اولا وآخرا وصلی اللہ علی محمد وآلہ الطاھرین