مؤلف کہتے ہیں: ان زیارتوں کی مناسبت سے یہاں سعید ،صالح،برگزیدہ،اور متقی حاجی علی بغدادیؒ کے واقعہ کا ذکر کردینا مفید ہوگا جیسے میرے استاد مرحوم نے اپنی دو کتابوں جنۃ الماویٰ ونجم الثاقب میں تحریر فرمایا ہے چنانچہ انہوں نے نجم الثاقب میں لکھا ہے اگر اس کتاب میں دیگر واقعات درج نہ کیے جاتے اور صرف یہی واقعہ مذکور ہوتا جو ھنوز تازہ ہے اورصحیح ہے نیز اس میں بہت سے فوائد بھی ہیں تو اس کتاب کی قدرو قیمت کیلئے اس میں صرف یہی کافی تھا اس تمہید کے بعد فرمایا کہ حاجی علی بغدادی کہ خدا ان کی تائید کرے انہوں نے ذکر کیا ہے کہ میرے ذمے اسی تومان مال امامؑ تھا کہ﴿ جو ایک ایرانی سکہ ہے ﴾میں نجف اشرف گیا اور اسی تومان میں سے بیس تومان علم الہدیٰ شیخ مرتضیٰ اعلی ﷲ مقامہ کی خدمت میں بیس تومان شیخ محمد حسین مجتہد کاظمینیؒ اور بیس تومان شیخ محمد حسن شروقیؒ کی خدمت میں پیش کیے اور بقایا بیس تومان جو میرے ذمہ رہ گئے ان کے بارے میں یہ خیال تھا کہ بغداد واپس پہنچ کر یہ رقم شیخ محمد حسن کاظمینی آل یاسینؒ کی خدمت میں پیش کروں گا اور میری خواہش تھی کہ اس کام میں ہر ممکن عجلت سے کام لوں پھر جمعرات کے روز میں نے امامین کاظمین(ع) کی زیارت کا قصد کیا اور زیارت سے مشرف ہونے کے بعد میں جناب شیخ سلمہ کے پاس گیا اور ان بیس تومان میں سے کچھ ان کی خدمت میں پیش کیے اور جو باقی رہ گئے ان کے بارے میں عرض کی کہ یہ میرے پاس رہنے دیں یہ میں بعض اجناس کی فروخت کے بعد آپ کی ہدایت کے مطابق حقداروں تک پہنچادوں گا۔ ان کے ہاں سے فارغ ہوکر میں نے اسی روز عصر کے وقت بغداد واپس جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو شیخ موصوف نے فرمایا کہ آج یہیں قیام کریں! میں نے عرض کی آج جاکر مجھے کارخانے کے مزدوروں کی اجرت ادا کرنا ہے کیونکہ ہمارے ہاں ہفتہ بھر کی مزدوری جمعرات کی عصر کے وقت ادا کی جاتی تھی پس میں وہاں سے چل پڑا اور ابھی میں نے ایک تہائی سفر طے کیا ہوگا کہ میری نظر ایک سید جلیل پر پڑی جو بغداد سے آرہے تھے۔ جب وہ میرے قریب پہنچے تو سلام کیا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا خوش آمدید کہا اور مجھے سینے سے لگا کر معانقہ کیا پھر ہم نے رواج عرب کے مطابق ایک دوسرے کا بوسہ لیا ان کے سرمبارک پر سبز عمامہ تھا اور رخسار پر بڑا سا سیاہ تل تھا انہوں نے فرمایا حاجی علی! آپ کا کیا حال ہے اور آپ کہاں جارہے ہیں ؟ میں نے عرض کی کاظمین کی زیارت کرکے واپس بغداد جارہاہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ آج شب جمعہ ہے لہذا آپ زیارت کاظمین کے لیے واپس ہوچلیں، میں نے عرض کی کہ میرے سردار میں ایسا نہیں کرسکتا! انہوں نے فرمایا کہ نہیں آپ ایسا کرسکتے ہیں۔ واپس چلیں تاکہ میں گواہ بنوں کہ آپ میرے جد بزرگوارامیر المؤمنینؑ کے موالیوں اور میرے محبوں میں سے ہیں نیز شیخ بھی اس بات کی گواہی دیں کیونکہ حق تعالی نے فرمایا ہے کہ اپنے لیے گواہ وشاہد بناؤں۔ ان کی اس بات میں در اصل ایک اشارہ اس خیال کی طرف تھا کہ جو میرے دل میں تھا اور وہ یہ کہ شیخ مکرم ومحترم سے درخواست کروں کہ وہ مجھے ایک تحریر لکھ دیں جس میں یہ ذکر ہو کہ میں امیر المؤمنینؑ کے محبوں میں سے ہوں اور پھر اس تحریر کو کفن میں اپنے ساتھ رکھوں۔ میں نے کہا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا اور آپ میرے لیے کس طرح کی شہادت دیں گے؟ انہوں نے فرمایا کہ جو شخص کسی کا حق اس تک پہنچاتا ہے تو حق وصول کرنے والے کو اس کے متعلق کیوں علم نہ ہو گا میں نے عرض کیا کہ کونسا حق ؟ انہوں نے فرمایا وہ جو آپ نے میرے وکیل کو دیا ہے میں نے کہا آپ کے کونسے وکیل کو؟ انہوں نے فرمایا وہی شیخ محمد حسن میں نے کہا کہ وہ آپ کے وکیل ہیں تو انہوں نے فرمایا ہاں وہ میرے وکیل ہیں اور جناب سید محمد بھی میرے وکیل ہیں میرے دل میں یہ بات آئی کہ ان سید جلیل نے مجھے میرے نام سے پکارا ہے حالانکہ وہ مجھے پہنچاتے نہیں ہیں پھر خیال آیا کہ وہ مجھے جانتے ہوں گے لیکن مجھے اس کی خبر نہ ہوئی ہوگی۔ پھر خیال آیا کہ یہ سید بزرگوار مجھ سے حق سادات میں سے کچھ لینا چاہتے ہیں اور چاہتے ہوں کہ انہیں مال امام میں سے کچھ دوں پس میں نے عرض کی کہ اے بزرگوار! آپ کے حق میں سے میرے پاس کچھ سہم امامؑ موجود ہے اور میں نے آقا شیخ محمد حسن سے اجازت بھی لی ہوئی ہے تو کیا وہ آپ کو دے دوں؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے ہمارے حق میں سے کچھ نجف اشرف میں وکیلوں کو دے دیا ہے۔ میں نے عرض کی کہ جو کچھ میں ادا کرچکا ہوں کیا وہ قبول ہے؟ انہوں نے کہا ہاں قبول ہے میرے دل میں آیا کہ یہ بزرگوار علماءِ کرام کو اپنا وکیل بتا رہے ہیں اور یہ بات مجھے کچھ اچھی معلوم نہ ہوئی تب میں نے پوچھا کہ کیا علماءِ کرام سہم سادات وصول کرنے میں وکیل ہوسکتے ہیں؟ اس کے بعد مجھ پر غفلت سی طاری ہوگئی اور میں اس سوال کا جواب دریافت نہ کرسکا۔ اس اثنا میں انہوں نے فرمایا کہ میرے جد بزرگوار کی زیارت کے لیے واپس چلے چلیں پس میں زیارت کیلئے ان کے ساتھ واپس پلٹا اور وہ میرا ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر چل پڑے میں نے راہ چلتے میں دیکھا کہ ایک نہر ہے جس میں صاف شفاف پانی جاری ہے اور لیموں نارنگی اور انگور کے درخت اور بیلیں موجود ہیں جن کا موسم نہیں ہے میں نے ان سے پوچھا کہ یہ نہر اور دخت کیسے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے محبوں میں سے جو شخص ہمارے جد بزرگوار کی اور ہماری زیارت کے لئے جائے یہ ان کے لیے ہیں۔ اس پر میں نے عرض کی کہ میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ ہاں پوچھیں میں نے کہا کہ شیخ عبد الرزاق مرحوم ایک عالم ومدرس تھے ایک دن میں ان کے پاس گیا تو سنا وہ فرمارہے تھے! کہ جو شخص زندگی بھر راتوں کو عبادت کرتا رہے اور دنوں میں روزے رکھے چالیس حج وعمرہ بجالا ئے اور صفاو مروہ کے درمیان فوت ہوجائے لیکن اگر وہ امیر المؤمنینؑ کے محبوں میں سے نہ ہو تو اسے ان عبادتوں کا کچھ بھی اجر نہیں ملے گا۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں قسم بخدا اسے کچھ نہیں ملے گا پھر میں نے اپنے عزیزوں میں سے ایک کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ امیر المؤمنینؑ کے محبوں میں سے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اور وہ بھی جو آپ کے متعلقین میں سے ہیں میں نے کہا کہ میرے سردار ایک مسئلہ پوچھتاہوں آپ نے فرمایا پوچھیں تب میں نے عرض کی کہ امام حسینؑ کی روضہ خوانی کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص سلیمان اعمش کے پاس آیا اور اس نے امام حسینؑ کی زیارت کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ یہ بدعت ہے۔ اس نے خواب میں زمین وآسمان کے درمیان ایک ہودج ﴿ نور کی عماری ﴾دیکھا تو پوچھا کہ اس میں کون ہے؟ اسے بتایا گیا کہ اس میں بی بی فاطمہ زہراء(ع) اور بی بی خدیجۃ الکبری(ع) ہیں اس نے پوچھا کہ یہ کہاں جارہی ہیں؟ جواب ملا کہ آج شب جمعہ ہے تو یہ اپنے فرزند امام حسینؑ کی زیارت کرنے جارہی ہیں پھر اس نے دیکھا کہ ہودج ﴿ نور کی عماری﴾میں سے بہت سے کاغذ گر رہے ہیں جن پر تحریر ہے کہ شب جمعہ میں امام حسینؑ کی زیارت کرنے والے کے لیے قیامت کے روز آگ سے امان ہے تو کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں یہ بالکل صحیح ہے میں نے عرض کی میرے آقا کیا یہ صحیح ہے کہ جو شخص شب جمعہ میں امام حسینؑ کی زیارت کرے اس کیلئے آگ سے امان ہے انہوں نے فرمایا ہاں قسم بخدا یہ بالکل صحیح ہے میں نے دیکھا کہ اس وقت ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور وہ گر یہ کر رہے ہیں میں نے کہا مجھے کچھ اور بھی پوچھنا ہے تو انہوں نے فرمایا ہاں پوچھیں میں نے کہا کہ ہم نے ۹۶۲۱ھ میں امام علی رضاؑ کی زیارت کی تو مقام درود پر ایک عرب سے ہماری ملاقات ہوئی جو نجف اشرف کی مشرقی جانب کے دیہاتیوں میں سے تھا۔ ہم نے اسے اپنا مہمان بنایا اور دوران گفتگو اس سے پوچھا کہ امام علی رضاؑ کا ملک کیسا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ توجنت ہے مجھے یہاں رہتے ہوئے آج پندرہ دن ہو رہے ہیں اور میں حضرتؑ کے مہمان خانے سے کھانا کھا رہا ہوں تو منکر نکیر کی کیا جرات ہے کہ وہ میری قبر میں آئیں جب کہ میرا گوشت پوست امام علی رضاؑ کے مہمان خانے کے کھانے سے پرورش پا چکا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے کہ امام علی رضاؑ اس کے پاس قبر میں تشریف لا کر اس کو منکر نکیر سے چھڑا لیں گے؟ انہوں نے فرمایا ہاں قسم بخدا کہ میرے جد اس شخص کے ضامن ہیں‘ میں نے کہا ایک چھوٹا سا سوال اور بھی ہے انہوں نے کہا کہ پوچھیں میں نے عرض کی کہ میری وہ زیارت امام علی رضاؑ قبول ہے تو فرمایا کہ قبول ہے ان شاء اللہ! میں نے کہا اے میرے مولا ایک اور سوال ہے تو فرمایا بسم اللہ پوچھیں‘ میں نے عرض کی کہ حاجی محمد حسین بزاز باشی ولد حاجی احمد بزاز باشی مرحوم جو اس زیارت میں میرے ہمراہی اور ہم خرچ تھے کیا ان کی زیارت قبول ہے یا نہیں انہوں نے فرمایا ہاں اس عبد صالح کی زیارت بھی قبول ہے ۔ میں نے پوچھا کہ بغداد کا فلاں شخص جو ہمارا ہمسفر تھا کیا اس کی زیارت قبول ہے یا نہیں تو وہ خاموش ہو گئے میں نے دوبارہ پوچھا کہ اس کی زیارت قبول ہے یا نہیں تو بھی انہوں نے کچھ جواب نہ دیا‘ حاجی علی بغدادی کا بیان ہے کہ وہ شخص بغداد کے مالدار افراد میں سے ایک تھا جو سفر زیارت میں کھیل تفریح کے کاموں میں مصروف رہتا تھا اور میں نے جس کے بارے میں سوال کیا تھا اس نے اپنی ماں کو قتل بھی کیا ہوا تھا۔ اس کے بعد ہم ایک کھلی سڑک پر پہنچے جس کے دونوں طرف باغات ہیں اور یہ کاظمین کے قریب وہ جگہ ہے جہاں بغداد کے باغات ان باغوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں وہ جگہ ایک یتیم سید کی تھی جس کو حکومت نے سڑک میں شامل کر لیا تھا اور کاظمین کے متقی و پرہیزگار لوگ سڑک کے اس حصے پر نہیں چلتے تھے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ وہ بزرگ اس جگہ پر چل رہے تھے میں نے عرض کی کہ اے میرے آقا یہ ایک یتیم سید کی جگہ ہے جسے استعمال کرنا درست نہیں ہے تو انہوں نے فرمایا کہ یہ جگہ میرے جد امیر المومنینؑ کی ان کی اولاد اور ہماری اولاد کی ہے لہذا ہمارے محبوں کے لیے اس کا استعمال حلال ہے۔ اس جگہ کے نزدیک حاجی میرزا ہادی کا ایک باغ تھا جو عجم کے معروف مالداروں میں سے ہیں اور آجکل بغداد میں سکونت پذیر ہیں۔ میں نے اس باغ کے بارے میں پوچھا کہ مشہور ہے کہ یہ امام موسیٰ کاظمؑ ہے کیا یہ درست ہے؟ انہوں نے فرمایا آپ کو اس سے کیا غرض اور اس بارے میں مزید کچھ نہ کہا‘ اتنے میں ہم دجلہ کے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں سے باغوں اور کھیتوں کے لیے پانی لیا جاتا ہے۔ وہاں سے دو راستے شہر کاظمین کو جاتے ہیں کہ ایک سلطانی اور دوسرا سادات کے نام سے مشہور ہے‘ انہوں نے سادات کے راستے پر چلنا شروع کیا تو میں نے کہا سلطانی راستے سے چلیں اس پر انہوں نے فرمایا کہ ہم اسی راستے سے جائیں گے‘ تھوڑا سا راستہ ہی چلے تھے کہ ہم صحن مبارک میں جہاں جوتے اتارے جاتے ہیں اس کے پاس پہنچ گئے جب کہ ہم کسی کوچہ و بازار سے نہ گزرے تھے۔ ہم مشرق کی جانب واقع باب المراد سے ایوان مبارک میں داخل ہوئے‘ وہ بزرگ رواق میں نہیں ٹھہرے اور اذن دخول بھی نہیں پڑھا بلکہ سیدھے حرم میں داخل ہوگئے‘ اور مجھ سے فرمایا کہ زیارت پڑھیں میں نے عرض کی کہ میں پڑھا ہوا نہیں تو انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کو زیارت پڑھاؤں ؟ میں نے کہا ہاں پڑھایئے تب آپؑ نے فرمایا:
أَ أَدْخُلُ یَااللہُ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَمِیْرَالْمُؤْمِنِیْنَ۔
کیا میں داخل ہوجاؤں اے اللہ، آپ پر سلام ہو اے خدا کے رسولؐ ، آپ پر سلام ہو اے مومنوں کے امیر۔
اسی طرح انہوں نے ائمہؑ میں سے ہر امام کا نام لے کر انہیں سلام کیا یہاں تک کہ امام حسن عسکریؑ کی نوبت آئی تو فرمایا:
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَبَا مُحَمَّدِ الْحَسَنَ الْعَسْکَرِی۔
آپ پر سلام ہو اے ابو محمد حسن العسکری(ع)۔
پھر مجھ سے کہا کہ آیا آپ اپنے زمانے کے امام کو پہنچاتے ہو؟ میں نے کہا کیوں نہ پہچانوں گا انہوں نے فرمایاامام زمان ﴿عج﴾کو سلام پیش کریں چنانچہ میں نے کہا:
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَ اللهِ یَا صَاحِبَ الزَّمَانِ یَا بْنَ الْحَسَنِ
آپ پر سلام ہو اے حجت خدا اے صاحب زمان اے حسن (ع) کے فرزند۔
اس پر وہ بزرگ مسکرائے اور فرمایا:عَلَیْکَ اَلسَّلاَمُ وَرَحْمَۃُ اللهِ وَبَرَکَاتُہ،
تم پر بھی سلام ہو خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات ہوں۔
اس کے بعد ہم حرم مطہر میں داخل ہوگئے ضریح مقدس کو سینے سے لگایا اور اس پر بوسہ دیا‘ ان بزرگ نے مجھ سے کہا کہ زیارت پڑھیں میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں‘ انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کو زیارت پڑھاؤں؟ میںنے عرض کی ہاں! انہوں نے فرمایا کہ آپ کونسی زیارت پڑھنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ جو زیارت افضل ہے مجھے وہی پڑھوائیں‘ انہوں نے فرمایا کہ زیارت امین ﷲ افضل ہے اور پھر زیارت پڑھنے میں مشغول ہوگئے اور فرمایا:
اَلسََّلاَمُ عَلَیْکُمَا یَااَمِیْنَیِ اللهِ فِیْ اَرْضِہِ وَحُجَّتَیْہ عَلَیٰ عِبَادِہِ ۔۔۔الخ
سلام ہو آپ دونوں پر اے خدا کی زمین میں اس کے امانتدارو اور اس کے بندوں پر اس کی حجت۔
تا آخر زیات امین ﷲ پڑھی اور عین اسی وقت حرم شریف کے چراغ جلادئے گئے میں دیکھ رہا تھا کہ شمعیں روشن ہیں لیکن حرم مطہر کسی اور نور سے جگمگا رہا تھا۔ جو سورج کی روشنی کی مانند تھا کہ جو شمعیں جل رہی تھیں وہ یوں لگتی تھیں جیسے سورج کے سامنے چراغ جلایا گیا ہو‘ لیکن مجھ پر اتنی غفلت چھائی ہوئی تھی کہ میں ان علامات کی طرف متوجہ نہ ہو رہا تھا۔ جب وہ بزرگ زیارت سے فارغ ہوئے تو پائنتی کی جانب مشرق کی سمت کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ آپ میرے جد بزرگوار امام حسینؑ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں میں نے کہا شب جمعہ ہے لہذا میں حضرت کی زیارت کرنا چاہتا ہوں تب آپ نے زیارت وارث پڑھی اور اس اثناء میں مؤذن مغرب کی اذان دے چکے تھے آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جائیں اور جماعت کے ساتھ نماز مغرب ادا کریں‘ وہ اس وقت اس مسجد میں آئے جو روضہ مبارک کے سرہانے کی طرف ہے وہاں جماعت ہورہی تھی اور انہوں نے امام کے دائیں پہلو ہوکر فرادیٰ نماز پڑھی ۔ میں پہلی صف میں جماعت کے ساتھ شامل ہوگیا جب میں نماز سے فارغ ہوا تو ان کو وہاں نہیں دیکھا میں مسجد سے نکلا اور حرم مبارک میں انہیں ڈھونڈنے لگا لیکن انہیں نہ پایا جب کہ میرا خیال تھا ان سے مل کر انہیں کچھ رقم دوں اور رات کو انہیں اپنے پاس ٹھہراؤں تاہم اس وقت میری آنکھوں سے غفلت کا پردہ ہٹا اور میں ان بزرگوار کے سبھی معجزوں کی طرف توجہ کرنے لگا کہ کیسے میں ان کی اطاعت کرتے ہوئے اپنا کام چھوڑ کر بغداد سے واپس آیا ان کا مجھے نام لے کر پکارنا ا پنے محبوں کی شہادت دینا اس نہر اور درختوں پر بے موسم کے میووں کا دیکھاجانا وغیرہ کہ جن کے باعث مجھے یقین ہوگیا کہ وہ میرے امام مہدی﴿عج﴾ تھے پھر اذن دخول میں امام حسن عسکریؑ کے بعد ان کا مجھ سے پوچھنا کہ اپنے زمانے کے امام کو جانتے ہو؟ اور یہ فرمانا کہ ان کو سلام کرو اور میرے سلام پیش کرنے کے بعد ان کا مسکرانا اور جواب میں وَعَلَیْکَ السَّلاَمُ کہنا وغیرہ تمام علامات میرے امام العصر ﴿عج﴾ہی کی تھیں میں جوتے رکھنے کی جگہ پر آیا اور ان لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ باہر چلے گئے ہیں اور پوچھا کہ کیا وہ بزرگوار سید آپ کے ہمراہی تھے؟ میں نے کہ ہاں۔ اس کے بعد میں نے وہ شب اپنے سابق میزبان کے ہاں آکر گزاری اور صبح ہوئی تو میں شیخ محمد حسن قبلہ کی خدمت میں پہنچا اور جو واقعات گزرے تھے وہ سب ان کے گوش گزار کیے تو انہوں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر مجھے اس قصہ اور اس راز کو اظہار کرنے سے منع فرمایا اور کہا کہ خدا آپ کو توفیق دے۔ چنانچہ اس واقعہ کے ایک ماہ بعد تک میں نے اس واقعہ سے کسی کو مطلع نہیں کیا تھا لیکن ایک روز جب میں حرم کاظمین میں دوبارہ گیا تو وہاں ایک سید بزرگوار کو دیکھا اور انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ فلاں دن کیا واقعہ ہوا تھا؟ میں نے عرض کی کہ میں نے تو اس روز کوئی چیز نہیں دیکھی تھی‘ انہوں نے پھر پوچھا تو بھی میں نے واضح طو پر انکار کیا تب وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے اور اس کے بعد میں نے انہیں کہیں نہیں دیکھا۔