سیدالکریم ابن طاؤس نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ : ہم امام جعفر صادقؑ کے ہمراہ کوفہ میں داخل ہوئے آپ ابو جعفر دوانقی ﴿منصور عباسی﴾کے پاس جا رہے تھے آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اے صفوان اونٹ کو بٹھا دو میرے جد بزرگوار امیرالمومنینؑ کا مزار یہاں سے نزدیک ہے آپ اونٹ سے اتر پڑے ،پھر غسل فرمایا،لباس تبدیل کیا، پا برہنہ ہوگئے اور فرمایا کہ تم بھی ایسا کرو اسکے بعد آپ نجف اشرف کی سمت روانہ ہوئے اور فرمایا کہ قدم چھوٹا رکھو اورسر جھکا کے چلو کہ اللہ اس راستے میں اٹھائے تمہارے ہر قدم کے بدلے میں تمہارے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھے گا تمہارے ایک لاکھ گناہ معاف فرمائے گا ایک لاکھ درجے بلند کرے گا اور تمہاری ایک لاکھ حاجات بر لائے گا نیز تمہارے اعمال میں ہر صدیق و شہید کا ثواب لکھے گا جو زندہ ہے یا مارا جا چکا ہے پس آنجناب چل پڑے اور میں بھی آپ کے ساتھ اطمینا ن اور سنجیدگی کے ساتھ ذکر الہی کرتا ہوا چلا جارہا تھا یہاں تک کہ ہم ٹیلوں کے قریب پہنچ گئے وہاں آپ نے دائیں بائیں نگاہ فرمائی اور اپنی ہاتھ کی چھڑی سے ایک لکیر کھینچی اور مجھ سے فرمایا کہ اس جگہ کو دیکھو لہذا میں نے جستجو کی تو مجھے نشان قبر نظر آگیایہ دیکھ کر آپ کے آنسوجاری ہو کر چہرے پر آگئے اور آپ نے یوں کہا:
إنَّا لِلہِ وَ إنَّا إلَیْہِ راجِعُونَ۔ پھر فرمایا اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا الْوَصِیُّ الْبَرُّ التَّقِیُّ
ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف پلٹنے والے ہیں آپ پر سلام ہو اے وصی نیک و پرہیزگار
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبَٲُ الْعَظِیمُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا الصِّدِّیقُ الرَّشِیدُ،
آپ پر سلام ہو اے خبر عظیم ﴿امامت﴾آپ پر سلام ہو اے صاحب صدق و ہدایت یافتہ آپ پر
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا الْبَرُّ الزَّکِیُّ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَصِیَّ رَسُولِ رَبِّ الْعالَمِینَ،
سلام ہو اے نیک و پاکیزہ آپ پر سلام ہو اے جہانوں کے رب کے رسول(ص) کے وصی(ع) و جانشین آپ پر
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خِیَرَةَ اللہِ عَلَی الْخَلْقِ أَجْمَعِینَ، أَشْھَدُ أَنَّکَ حَبِیبُ اللہِ وَخاصَّۃُ اللہِ وَخالِصَتُہُ
سلام ہو اے ساری مخلوق پر خدا کی طرف سے برگزیدہ میں گواہی دیتا ہو ں کہ آپ خدا کے حبیب اور اس کے خاص اور مخلص بندے ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَلِیَّ اللہِ وَمَوْضِعَ سِرِّہِ وَعَیْبَةَ عِلْمِہِ وَخازِنَ وَحْیِہِ۔
سلام ہو آپ پر اے خدا کے ولی اسرار الہی کے امین اس کے علم کے گنجینہ اور اس کے وحی کے خزینہ دار۔
پھر آپ قبر اطہر سے لپٹ گئے اور فرمایا :
بِأَبِی أَنْتَ وَٲُمِّی یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، بِأَبِی أَنْتَ وَٲُمِّی یَا حُجَّةَ الْخِصامِ،
قربان ہوں آپ پر میرے ماں باپ اے امیرالمومنین(ع) قربان ہوں آپ پر میرے ماں باپ اے دشمنوں پر حجت
بِأَبِی أَنْتَ وَٲُمِّی یَا بَابَ الْمَقَامِ، بِأَبِی أَنْتَ وَٲُمِّی یَا نُورَ اللہِ التَّامَّ،
قربان ہوں آپ پر میرے ماں باپ اے ہر مقصود کے دروازے قربان ہوں آپ پر میرے ماں باپ اے خدا کے کامل نور
أَشْھَدُ أَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ عَنِ اللہِ وَعَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ مَا حُمِّلْتَ،
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے خدا اور اس کے رسول(ص)کے وہ احکام لوگوں تک پہنچائے جو آپ نے حاصل کیے جو علوم ملے
وَرَعَیْتَ مَا اسْتُحْفِظْتَ، وَحَفِظْتَ مَا اسْتُودِعْتَ، وَحَلَّلْتَ حَلالَ اللہِ، وَحَرَّمْتَ حَرامَ اللہِ،
ان کی نگہبانی کی جو امور آپ کے سپرد ہوئے انہیں فراموش نہیں کیا اور آپ نے حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام ٹھہرایا
وَأَقَمْتَ أَحْکامَ اللہ، وَلَمْ تَتَعَدَّ حُدُودَ اللہ، وَعَبَدْتَ اللہ مُخْلِصاً حَتَّی أَتَاکَ الْیَقِینُ، صَلَّی اللہُ عَلَیْکَ وَعَلَی الْاََئِمَّةِ مِنْ بَعْدِکَ۔
آپ نے احکام الہی کو نافذ کیا خدا کی حدوں سے تجاوز نہیں کیا اور خدا کی خالص بندگی کرتے رہے یہاں تک کہ آپ شہادت پاگئے خدا رحمت کرے آپ پر اور آپ کے جانشین ائمہ(ع) پر۔
اس کے بعدحضرت امام جعفر صادقؑ اٹھے اور قبر کے سرہانے کی طرف کھڑے ہو کر چند رکعت نماز پڑھی ۔اور پھر فرمایا : اے صفوان ! جو شخص امیرالمومنینؑ کی زیارت کرنے میں یہ زیارت پڑھے اس طرح نماز گزارے تو وہ اپنے اہل خانہ کے پاس اس حال میں لوٹے گا کہ اس کے گناہ بخشے جا چکے ہوں گے اس کا یہ عمل زیارت مقبول ہو گا اور اس کے لئے وہ ثواب لکھا جائے گا جو فرشتوں میں سے حضرت کی زیارت کو آنے والے کسی فرشتے کو ملتا ہے ۔ صفوان نے حیران ہو کر پوچھا آیا کوئی فرشتہ بھی حضرت امیرالمومنینؑ کی زیارت کرنے آتا ہے؟ حضرت نے فرمایا : ہاں ہر رات ملائکہ میں سے ستر قبیلے آپ کی زیارت کو آتے ہیں اس نے پوچھا ہر قبیلے میں کتنے فرشتے ہوتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہر قبیلے میں ایک لاکھ فرشتے ہوتے ہیں پھر آنجناب الٹے پاؤں چلتے ہوئے قبرحضرت امیرالمومنینؑ سے واپس ہوئے۔ جبکہ آپ فرما رہے تھے:
یَا جَدَّاہُ یَا سَیِّداہُ یَا طَیِّباہُ یَا طاھِراہُ لاَ جَعَلَہُ اللہُ آخِرَ الْعَھْدِ مِنْکَ
اے میرے جد بزرگواراے میرے سردار اے خوش کردار اے پاکیزہ تر خدا آپ کی اس زیارت کو میرے لئے آخری نہ بنائے
وَرَزَقَنِی الْعَوْدَ إلَیْکَ، وَالْمَقامَ فِی حَرَمِکَ، وَالْکَوْنَ مَعَکَ وَمَعَ الْاَبْرارِ مِنْ وُلْدِکَ
اور مجھے دوبارہ حاضر ہونا اور آپکے حرم میں ٹھہرنا نصیب کرے آپکی خدمت میں آنے اور آپکی پاک اولاد کے حضور حاضری کی توفیق دے
صَلَّی اللہ عَلَیْکَ وَعَلَی الْمَلائِکَةِ الْمُحْدِقِینَ بِکَ۔
خدا رحمت کرے آپ پر اور ان ملائکہ پر جو آپ کی قبر کا طواف کرتے ہیں۔
صفوان کہتا ہے کہ میں نے آنجناب کی خدمت میں عرض کی کہ آیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں کوفہ میں اپنے مومن بھائیوں کو اس واقعہ کی خبر دوں اور انہیں اس قبر کے نشان سے آگاہ کروں آپ نے فرمایا ہاں تمہیں اجازت ہے پھر آپ نے مجھے کچھ درہم عنایت کیے ۔ جن سے میں نے قبر امیرالمومنینؑ کی مرمت کرائی۔