یہ امام حسینؑ کی وہ زیارت ہے جو عید الفطر اور عید قربان میں پڑھی جاتی ہے۔ معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوا ہے کہ جو شخص تین راتوں میں سے کسی ایک رات کوروضہ امام حسینؑ کی زیارت کرے تو اس کے گزشتہ اور آئندہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور وہ عید الفطر کی رات‘ عید قربان کی رات اور پندرہ شعبان کی رات ہے۔ معتبر روایت میں امام موسیٰ کاظمؑ سے نقل ہوا ہے کہ جو شخص تین راتوں میں سے کسی ایک رات امام حسینؑ کی زیارت کرے تو اس کے گزشتہ و آئندہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور وہ راتیں پندرہ شعبان‘ تیئیس رمضان اور عید الفطر کی رات ہیں امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوا ہے کہ جو شخص ایک ہی سال میں پندرہ شعبان‘ عید الفطر اور شب عرفہ ﴿نویں ذوالحجہ کی شب﴾ میں امام حسینؑ کی زیارت کرے تو حق تعالیٰ اس کیلئے ایک ہزار حج مقبول اور ایک ہزار عمرہ مقبولہ کا ثواب لکھتا ہے دنیا و آخرت میں اس کی ایک ہزار حاجات پوری ہوتی ہیں۔ امام محمد باقرؑ سے منقول ہے کہ جو شخص شب عرفہ سرزمین کربلا میں ہو اور روز عید قربان تک وہیں رہے اور پھر واپس چلا جائے تو خدائے تعالیٰ اس سال میں رونما ہونے والے شر سے اس کو محفوظ فرمائے گا یاد رہے کہ علماء نے ان دو بلند مرتبہ عیدوں کے لیے دو زیارتیں نقل کی ہیں ان میں سے ایک تو وہی ہے جو قبل ازیں شب ہائے قدر کے لیے لکھی گئی ہے اور دوسری یہ ہے کہ جو ابھی نقل کی جارہی ہے علماء کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اول الذکر زیارت عیدین کے دنوں کیلئے اور درج ذیل زیارات عیدین کی راتوں میں پڑھنے کیلئے ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص ان راتوں میں امام حسینؑ کی زیارت کا ارادہ کرے تو حضرت کے قبہ مبارکہ کے دروازے پر کھڑا ہو جائے ضریح پاک پر نظر رکھے اور داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے ہوئے یوں کہے:
یا مَوْلایَ یَا أَبا عَبْدِاللهِ، یَابْنَ رَسُولِ اللهِ عَبْدُکَ وَابْنُ أَمَتِکَ الذَّلِیلُ بَیْنَ یَدَیْکَ
اے میرے آقا اے ابا عبداللہ (ع)اے رسول خدا (ص)کے فرزند آپ کا غلام اور آپ کی کنیز کا بیٹاآپ کے سامنے
وَالْمُصَغَّرُ فِی عُلوِّ قَدْرِکَ وَالْمُعْتَرِفُ بِحَقِّکَ جاءَکَ مُسْتَجِیراً بِکَ قاصِداً إلی حَرَمِکَ
بے حیثیت آپکے بلند مرتبہ کے مقابل ناچیز اور آپکے حق کا اقرار کرنے والا آپکے پاس پناہ لینے آیا ہے آپکے حرم کی طرف سفر کرکے
مُتَوَجِّھاً إلی مَقامِکَ مُتَوَسِّلاً إلَی اللهِ تَعالی بِکَ أَ أَدْخُلُ یَا مَوْلایَ أَ أَدْخُلُ یا وَلِیَّ اللهِ
پہنچا آپکے مقام کی طرف رخ کیے ہوئے خدا کے حضور آپکو اپنا وسیلہ بناتا ہے اندر آ جاؤں اے میرے مولا کیا اندر آجاؤں اے ولی خدا
أَ أَدْخُلُ یَا مَلائِکَةَ اللهِ الْمُحْدِقِینَ بِھذَا الْحَرَمِ، الْمُقِیمِینَ فِی ھذَا الْمَشْھَدِ۔
کیا اندر آ جاؤں اے فرشتو جو اس حرم کے گرد موجود ہو اس زیارت گاہ میں اقامت رکھتے ہو۔
پس اگر زائر کے دل میں خوف پیدا ہوجائے اور آنکھوں میں آنسو آ جائیں تو سمجھے کہ اجازت مل گئی پس اندر داخل ہو جائے پہلے دایاں پاؤں اندر رکھے اور پھر بایاں اور کہے:
بِسْمِ اللهِ وَبِاللہِ وَفِی سَبِیلِ اللهِ وَعَلَی مِلَّةِ رَسُولِ اللهِ اَللّٰھُمَّ أَنْزِلْنِی مُنْزَلاً مُبارَکاً وَأَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِینَ
خدا نے نام سے خدا کی ذات سے خدا کی راہ میں اور رسول خدا (ص)کے دین و آئین پر اے معبود! جگہ دے مجھ کو بابرکت مکان میں اور تو ہے بہترین میزبان ہے۔
پھر کہے: اللہُ أَکْبَرُ کَبِیراً وَالْحَمْدُ لِلہِ کَثِیراً، وَسُبْحانَ اللهِ بُکْرَةً وَأَصِیلاً،
خدا بزرگتر ہے بزرگی کے ساتھ اور حمد ہے خدا کے لیے بہت بہت پاک تر ہے خدا ہر صبح اور ہر شام
وَالْحَمْدُ لِلہِ الْفَرْدِ الصَّمَدِ، الْمَاجِدِ الْاَحَدِ، الْمُتَفَضِّلِ الْمَنَّانِ، الْمُتَطَوِّلِ الْحَنَّانِ،
اور حمد ہے خدا کے لیے جو تنہا بے نیاز بزرگی والا یگانہ فضل کرنے والا احسان کے ساتھ بہت عطا کرنے والا محبت کے ساتھ
الَّذِی مِنْ تَطَوُّلِہِ سَھَّلَ لِی زِیارَةَ مَوْلایَ بِإحْسانِہِ، وَلَمْ یَجْعَلْنِی عَنْ زِیارَتِہِ مَمْنُوعاً،
وہ جس کی عطا اور احسان سے میرے مولا کی زیارت میرے لیے آسان ہوئی اس نے مجھے انکی زیارت کرنے سے نہیں روکا
وَلَا عَنْ ذِمَّتِہِ مَدْفُوعاً، بَلْ تَطَوَّلَ وَمَنَحَ۔
اور ان کی پناہ سے محروم نہیں کیا بلکہ اس نے عطا و بخشش سے کام لیا۔
اب اندر جائے اور جب روضہ کے درمیان پہنچے تو قبرکے سامنے گریہ کرتے ہوئے عاجزی سے کھڑے ہو کر کہے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ آدَمَ صَفْوَةِ اللهِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاوارِثَ نُوحٍ أَمِینِ اللهِ
آپ پر سلام ہو اے آدم (ع) کے وارث جو خدا کے چنے ہوئے ہیں آپ پر سلام ہو اے نوح (ع)کے وارث جو خدا کے امین ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ إبْراھِیمَ خَلِیلِ اللهِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُوسی کَلِیمِ اللهِ
سلام ہوآپ پر اے ابراہیم (ع) کے وارث جو خدا کے خلیل ہیں سلام ہو آپ پر اے موسیٰ (ع)کے وارث جو خدا کے کلیم ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عِیسی رُوحِ اللهِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُحَمَّدٍحَبِیبِ اللهِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عَلِیٍّ حُجَّةِ اللهِ،
آپ پر سلام ہو اے عیسیٰ کے وارث جو خدا کی روح ہیں آپ پر سلام ہو اے محمد (ص)کے وارث جو خدا کے حبیب ہیں سلام ہوآپ پر اے علی(ع) کے وارث جو حجت خدا ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا الْوَصِیُّ الْبَرُّ التَّقِیُّ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ثارَ اللهِ وَابْنَ ثارِہِ وَالْوِتْرَ الْمَوْتُورَ
آپ پر سلام ہو اے وصی نیک پرہیز گار آپ پر سلام ہو اے قربان خدااور قربان خدا کے فرزند اور وہ خون جس کا بدلہ لیا جانا ہے
أَشْھَدُ أَنَّکَ قَدْ أَقَمْتَ الصَّلاةَ وَآتَیْتَ الزَّکاةَ وَأَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَھَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی آپ نے نیک کاموں کا حکم دیابرے کاموں سے منع کیا
وَجاھَدْتَ فِی اللهِ حَقَّ جِھادِہِ حَتَّی اسْتُبِیحَ حَرَمُکَ، وَقُتِلْتَ مَظْلُوماً۔
اور راہ خدا میں جہاد کیا جو جہاد کرنے کاحق ہے یہاں تک کہ آپ کی بے احترامی ہوئی اور مظلومی میں قتل ہو گئے۔
پھر حضرتؑ کے روضۃ مبارک کے سرہانے رقت دل اور روتی آنکھوں کے ساتھ کھڑے ہو کر کہے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبا عَبْدِاللهِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ اللهِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ سَیِّدِ الْوَصِیِّینَ
آپ پر سلام ہو اے ابا عبداللہ آپ پر سلام ہو اے رسول(ص) خدا کے فرزند سلام ہو آپ پر اے اوصیاء کے سردار کے فرزند
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ فاطِمَةَ الزَّھْراءِ سَیِّدَةِ نِساءِ الْعالَمِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا بَطَلَ الْمُسْلِمِینَ،
سلام ہو آپ پر اے فاطمہ زہرا کے فرزند جو جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں آپ پر سلام ہو اے مسلمانوں میں بڑے بہادر
یَامَوْلایَ أَشْھَدُ أَنَّکَ کُنْتَ نُوراً فِی الْاَصْلابِ الشَّامِخَةِ وَالْاَرْحامِ الْمُطَھَّرَةِ،
اے میرے مولا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نور کی صورت میں رہے عزت والی پشتوں اور پاکیزہ رحموں میں
لَمْ تُنَجِّسْکَ الْجاھِلِیَّۃُ بِأَنْجَاسِھا، وَلَمْ تُلْبِسْکَ مِنْ مُدْلَھِمَّاتِ ثِیابِھا
جاہلیت نے آپ کو اپنی نجاستوں سے آلودہ نہیں کیا اور نہ اس نے آپ پر برے اثرات ڈالے
وَأَشْھَدُ أَنَّکَ مِنْ دَعائِمِ الدِّینِ وَأَرْکانِ الْمُسْلِمِینَ، وَمَعْقِلِ الْمُؤْمِنِینَ
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ دین کے ستونوں مسلمانوں کے سرداروں اور مومنوں کے قلعوں میں سے ہیں
وَأَشْھَدُ أَنَّکَ الْاِمامُ الْبَرُّ التَّقِیُّ الرَّضِیُّ الزَّکِیُّ الْھادِی الْمَھْدِیُّ،
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امام نیکو کارپرہیز گارپسندیدہ پاکیزہ رہبر راہ یافتہ ہیں
وَأَشْھَدُ أَنَّ الْاَئِمَّةَ مِنْ وُلْدِکَ کَلِمَۃُ التَّقْویٰ، وَأَعْلامُ الْھُدیٰ، وَالْعُرْوَۃُ الْوُثْقی، وَالْحُجَّۃُ عَلَی أَھْلِ الدُّنْیا۔
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جوائمہ آپ کی اولاد میں سے ہیں وہ پرہیز گاری کے پیام ہدایت کے نشان خدا کی مضبوط رسی اور اہل دنیا پر اس کی حجت ہیں۔
اب خود کو قبر مبارک کے ساتھ لپٹائے اور کہے:
إنَّا لِلہِ وَ إنَّا إلَیْہِ راجِعُونَ، یَا مَوْلایَ، أَنَا مُوالٍ لِوَلِیِّکُمْ، وَمُعادٍ لِعَدُوِّکُمْ، وَأَنَا بِکُمْ مُؤْمِنٌ،
یقینا ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف پلٹنے والے ہیں اے میرے مولا میں آپ کے دوست کا دوست اور آپ کے دشمن کا دشمن ہوں آپکا اور آپکی رجعت کا معتقد ہوں
وَبِإیابِکُمْ مُوقِنٌ، بِشَرائِعِ دِینِی، وَخَواتِیمِ عَمَلِی، وَقَلْبِی لِقَلْبِکُمْ سِلْمٌ،
میں یقین رکھتاہوں اپنے دین کے احکام اور اپنے عمل کے بدلے پر میرا دل آپکے دل سے پیوستہ
وَأَمْرِی لاَِمْرِکُمْ مُتَّبِعٌ، یَا مَوْلایَ، أَتَیْتُکَ خائِفاً فَآمِنِّی، وَأَتَیْتُکَ مُسْتَجِیراً فَأَجِرْنِی
اور میرا مقصد آپکے مقصد کی پیروی ہے اے میرے مولا آپکے پاس ڈرتا ہوا آیا ہوں مجھے تسلی دیں آپ کے پاس پناہ لینے آیا ہوں مجھے پناہ دیں
وَأَتَیْتُکَ فَقِیراً فَأَغْنِنِی، سَیِّدِی وَمَوْلایَ أَنْتَ مَوْلایَ حُجَّۃُ اللهِ عَلَی الخَلْقِ أَجْمَعِینَ،
اور آپ کے پاس محتاج ہو کر آیا ہوں مالا مال کریں اے میرے آقا اے میرے مولا آپ میرے وہ مولا ہیں جو خدا کی ساری مخلوق پر اسکی حجت ہیں
آمَنْتُ بِسِرِّکُمْ وَعَلانِیَتِکُمْ، وَبِظاھِرِکُمْ وَباطِنِکُمْ، وَأَوَّلِکُمْ وَآخِرِکُمْ
میں ایمان رکھتا ہوں آپکے نہاں و عیاں پر آپ کے ظاہر پر اور آپ کے باطن پر اور آپ کے اول پر اور آخر پر
وَأَشْھَدُ أَنَّکَ التَّالِی لِکِتابِ اللهِ وَأَمِینُ اللهِ الدَّاعِی إلَی اللهِ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ،
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کتاب خدا کی تلاوت کرنے والے خدا کے امین ہیں اور بہترین نصیحت کیساتھ خدا کی طرف بلانے والے ہیں
لَعَنَ اللہُ ٲُمَّةً ظَلَمَتْکَ، وَلَعَنَ اللہُ ٲُمَّةً قَتَلَتْکَ وَلَعَنَ اللہُ ٲُمَّةً سَمِعَتْ بِذلِکَ فَرَضِیَتْ بِہِ۔
خدا لعنت کرے اس گروہ پر جس نے آپ پر ظلم کیا اور جس نے آپکو قتل کیا اور خدا لعنت کرے اس گروہ پر جس نے یہ بات سنی تو اور اس پر خوش ہوا۔
پھر حضرتؑ کے سرہانے کی طرف دو رکعت نماز بجالائے اور نماز کا سلام دینے کے بعد کہے:
اَللّٰھُمَّ إنِّی لَکَ صَلَّیْتُ وَلَکَ رَکَعْتُ وَلَکَ سَجَدْتُ وَحْدَکَ لاَ شَرِیکَ لَکَ
اے معبود! بے شک میں نے تیرے لیے نماز پڑھی تیرے لیے رکوع کیااور تیرے لیے سجدہ کیا تو یکتا ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں
فَإنَّہُ لا تَجُوزُ الصَّلاۃُ وَالرُّکُوعُ وَالسُّجُودُ إلاَّ لَکَ لاَِنَّکَ أَنْتَ اللہُ الَّذِی لاَ إلہَ إلاَّ أَنْتَ
پس نہیں ہے جائز نماز پڑھنا اور رکوع کرنااور سجدہ کرنا مگر تیرے ہی واسطے اس لیے کہ تو وہ اللہ ہے کہ تیرے سواء کوئی معبود نہیں
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَبْلِغْھُمْ عَنِّی أَفْضَلَ السَّلامِ وَالتَّحِیَّةِ، وَارْدُدْ عَلَیَّ مِنْھُمُ السَّلامَ۔
اے معبود محمد(ص) وآل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور پہنچا ان کو میری طرف سے بہترین سلام اور درود اور پلٹا مجھ پر ان کی طرف سے دعا سلامتی
اَللّٰھُمَّ وَھاتانِ الرَّکْعَتانِ ھَدِیَّۃٌ مِنِّی إلی سَیِّدِی الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ۔
اے معبود! میری یہ دو رکعت نماز ہدیہ ہے میری طرف سے میرے سردار حسین (ع) کیلئے جو فرزند ہیں علی (ع) کے لیے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَیْہِ وَتَقَبَّلْھُما مِنِّی وَاجْزِنِی عَلَیْھِما أَفْضَلَ أَمَلِی وَرَجائِی فِیکَ وَفِی وَلِیِّکَ یَا وَلِیَّ الْمُؤْمِنِینَ
اے معبود حضرت محمد(ص) پر اور حسین(ع) پر رحمت فرما اور بوسہ دے ان کو میری طرف سے اور پوری کران کی خاطر میری بہترین آرزو اور امید جو میں تجھ سے اور تیرے اس ولی سے رکھتا ہوں اے مومنوں کے سرپرست۔
پھر اپنے آپ کو قبر مبارک سے لپٹاکر بوسہ دیے اور کہے:
اَلسَّلَامُ عَلَی الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ الْمَظْلُومِ الشَّھِیدِ قَتِیلِ الْعَبَراتِ، وَأَسِیرِ الْکُرُباتِ
سلام ہو حسین(ع) ابن علی(ع) پر کہ جو ستم رسیدہ شہید ہیں ایسے مقتول ہیں جن پر آنسو بہائے گئے اور جن پر مصیبتیں آ پڑیں
اَللّٰھُمَّ إنِّی أَشْھَدُ أَنَّہُ وَلِیُّکَ وَابْنُ وَلِیِّکَ وَصَفِیُّکَ الثَّائِرُ بِحَقِّکَ
اے معبود بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ ضرور وہ تیرے ولی اور تیرے ولی کے بیٹے اور تیرے پسندیدہ تیری خاطر انتقام لینے والے ہیں
أَکْرَمْتَہُ بِکَرامَتِکَ، وَخَتَمْتَ لَہُ بِالشَّھادَةِ، وَجَعَلْتَہُ سَیِّداً مِنَ السَّادَةِ، وَقائِداً مِنَ الْقادَةِ،
جن کو تو نے اپنی عزت سے عزت دی اور انہیں شہادت کی موت نصیب فرمائی اور انہیں سرداروں کا سردار اور رہنماؤں کا رہنما بنایا
وَأَکْرَمْتَہُ بِطِیبِ الْوِلادَةِ، وَأَعْطَیْتَہُ مَوارِیثَ الْاَنْبِیاءِ، وَجَعَلْتَہُ حُجَّةً عَلَی خَلْقِکَ مِنَ الْاَوْصِیاءِ،
تو نے بزرگی دی ان کو پاکیزہ پیدائش سے اور عطا فرمائے ان کو نبیوں کے ورثے، تو نے قرار دیا ان کو اپنی مخلوق پر حجت اوصیاء میں سے
فَأَعْذَرَ فِی الدُّعاءِ، وَمَنَحَ النَّصِیحَةَ وَبَذَلَ مُھْجَتَہُ فِیکَ حَتَّی اسْتَنْقَذَ عِبادَکَ مِنَ الْجَھالَةِ، وَحَیْرَةِ الضَّلالَةِ،
پس انہوں نے دعوت حق میں حجت تمام کی لگا تار نصیحت کرتے رہے اور تیرے نام پر گردن کٹا دی تاکہ تیرے بندوں کو جہالت کے اندھیروں اور گمراہی کی پریشانیوں سے نکالیں
وَقَدْ تَوازَرَ عَلَیْہِ مَنْ غَرَّتْہُ الدُّنْیا، وَباعَ حَظَّہُ مِنَ الْاَخِرَةِ بِالْاَدْنی، وَتَرَدَّی فِی ھَواہُ،
جب کہ ان کے خلاف وہ لوگ جمع تھے جن کو دنیا نے دھوکہ دیا انہوں نے آخرت کو دنیا کے بدلے فروخت کر دیاا ور خواہش کے پیچھے چل پڑے
وَأَسْخَطَکَ وَأَسْخَطَ نَبِیَّکَ، وَأَطاعَ مِنْ عِبادِکَ ٲُولِی الشِّقاقِ وَالنِّفاقِ، وَحَمَلَةَ الْاَوْزارِ، الْمُسْتَوْجِبِینَ النَّارَ
انہوں نے تجھے اور تیرے نبی کو ناراض کیا تیرے ان بندوں کا کہنا مانا جو فسادی اور بے ایمان تھے اور ان گناہوں کا بوجھ اٹھا لیا کہ ان کا جہنم میں جانا لازم ٹھہرا
فَجاھَدَھُمْ فِیکَ صابِراً مُحْتَسِباً، مُقْبِلاً غَیْرَ مُدْبِرٍ، لاَ تَأْخُذُہ فِی اللهِ لَوْمَۃُ لائِمٍ حَتَّی سُفِکَ فِی طاعَتِکَ دَمُہُ وَاسْتُبِیحَ حَرِیمُہُ۔
پس حسین (ع) نے تیرے لیے ان سے صبر و احتیاط کے ساتھ جہاد کیا پیچھے نہیں ہٹے خدا کے بارے میں انہوں نے کسی ملامت کرنے والے کواہمیت نہ دی حتی کہ تیری فرمانبرداری میں انکا خون بہا دیا گیااور انکی حرمت پامال کی گئی
اَللّٰھُمَّ الْعَنْھُمْ لَعْناً وَبِیلاً، وَعَذِّبْھُمْ عَذاباً أَلِیماً
اے معبود! ان ظالموں پر لعنت کہ وہ لعنت جو سخت ہو اور جھونک دے ان کو درد ناک عذاب میں آپ پر
پھر حضرت علی اکبر جو امام حسین کی پائنتی میں ہیں ان کی طرف جائے اور کہے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَلِیَّ اللهِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ اللهِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ خاتَمِ النَّبِیِّینَ|
سلام ہو اے ولی خدا آپ پر سلام ہو آپ پر اے فرزند رسول خدا سلام ہو اے خاتم الانبیاء کے فرزند
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ فاطِمَةَ سَیِّدَةِ نِساءِ الْعالَمِینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ
آپ پر سلام ہو اے فرزند فاطمہ(ع) جو جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں آپ پر سلام ہو اے امیر المومنین(ع) کے فرزند
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا الْمَظْلُومُ الشَّھِیدُ بِأَبِی أَنْتَ وَٲُمِّی عِشْتَ سَعِیداً وَقُتِلْتَ مَظْلُوماً شَھِیداً
آپ پر سلام ہو اے کہ جو ستم رسیدہ شہید ہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ نے سعادت مندی کی زندگی گزاری اور مظلوم شہید قتل کئے گئے
اب دیگر شہداء کی طرف منہ کرے اور کہے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَیُّھَا الذَّابُّونَ عَنْ تَوْحِیدِ اللهِ
آپ پر سلام ہو اے خدا کی توحید کی خاطر جنگ کرنے والو
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ بِما صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ بِأَبِی أَنْتُمْ وَٲُمِّی فُزْتُمْ فَوْزاً عَظِیماً۔
آپ پر سلام ہو کہ آپ نے بڑا صبر کیاہاں کیا ہی اچھا ہے آپ کا آخرت کا گھر میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔
اس کے بعد حضرت عباس بن حضرت علی المرتضیؑ کے مزار پر جائے اورضریح پاک کے نزدیک کھڑے ہو کر کہے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ وَالصِّدِّیقُ الْمُواسِی، أَشْھَدُ أَنَّکَ آمَنْتَ بِاللہِ
آپ پر سلام ہو اے بندہ نیک و پرہیز گار صاحب صدق اور فدا کار میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے پر ایمان رکھتے تھے
وَنَصَرْتَ ابْنَ رَسُولِ اللهِ وَدَعَوْتَ إلَی سَبِیلِ اللهِ وَواسَیْتَ بِنَفْسِکَ فَعَلَیْکَ مِنَ اللهِ أَفْضَلُ التَّحِیَّةِ وَالسَّلامِ
آپ نے رسول خدا (ص)کے فرزند کا ساتھ دیا لوگوں کو راہ خدا کی طرف بلایا اور آپ نے ہمدردی میں جان قربان کر دی پس آپ پر خدا کی طرف سے بہترین رحمت اور سلام ہو
پھر اپنے آپ کو قبر شریف سے لپٹائے اور کہے:
بِأَبِی أَنْتَ وَٲُمِّی یَا ناصِرَ دِینِ االلهِ
قربان آپ پر میرے ماں باپ اے دین خدا کے ناصر
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ناصِرَ الْحُسَیْنِ الصِّدِّیقِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ناصِرَ الْحُسَیْنِ الشَّھِیدِ، عَلَیْکَ مِنِّی اَلسَّلَامُ مَا بَقِیتُ وَبَقِیَ اللَّیْلُ وَالنَّھارُ۔
سلام ہو آپ پر اے حسین(ع) کی مدد کرنے والے جو صدیق ہیں آپ پر سلام ہو حسین(ع) کے مددگار جو شہید ہیں آپ پر میری طرف سے سلام ہوجب تک باقی ہوں اور جب تک رات دن باقی ہیں۔
پھر حضرت کے سرہانے کی طرف جائے اور دو رکعت نماز ادا کرے اور اس کے بعد وہ دعا پڑھے جو امام حسینؑ کے سرہانے پڑھی تھی۔ یعنی تا آخر جوحضرت امام حسینؑ کی زیارت مطلقہ میں ساتویں زیارت کے ہمراہ نقل ہو چکی ہے جب یہ دعا پڑھ لے توضریح حضرت امام حسینؑ پر آ جائے اور جب تک چاہے حضرت کے پاس رہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اس مقدس جگہ کو اپنی خواب گاہ نہ بنائے جب حضرت امام حسین(ع) سے وداع کرنا چاہے تو آپ کے سرہانے کے نزدیک کھڑا ہو جائے اور روتے ہوئے کہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ صَلَیْتُ ۔۔۔۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ سَلامَ مُوَدِّعٍ لاَ قالٍ وَلاَ سَئِمٍ، فَإنْ أَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَلالَةٍ
آپ پر سلام ہو اے میرے آقا وداع کرنے والے کا سلام اس کا جو دل تنگ نہیں اور نہ تھکا ہوا ہے
وَ إنْ ٲُقِمْ فَلا عَنْ سُوءِ ظَنٍّ بِمَا وَعَدَ اللہُ الصَّابِرِینَ، یَا مَوْلایَ لَا جَعَلَہُ اللہُ آخِرَ الْعَھْدِ مِنِّی لِزِیارَتِکَ
پس اگر میں پلٹ جاؤں تو اسکی وجہ رنجش نہیں اور اگر ٹھہروں تو اس کی وجہ بد گمانی نہیں اس وعدے سے جو خدا نے صابروں سے کیا ہے اے میرے آقا خدا اس زیارت کو میرے لیے آخری زیارت قرار نہ دے
وَرَزَقَنِی الْعَوْدَ إلَیْکَ وَالْمَقَامَ فِی حَرَمِکَ وَالْکَوْنَ فِی مَشْھَدِکَ آمِینَ رَبَّ الْعالَمِینَ۔
وہ مجھے آپکے حضور دوبارہ آنا نصیب کرے آپکے حرم میں ٹھہرنے کا موقع دے اور آپ کے روضہ پر حاضری کی سعادت بخشے ایسا ہی ہو اے جہانوں کے رب۔
اب حضرت امام حسینؑ کی ضریح مقدس کو بوسہ دے اور اپنے سارے بدن کو اس سے مس کرے کہ بے شک یہ اس کیلئے حفظ و امان کا باعث ہے پھر حضرت امام حسینؑ کے ہاں سے نکل پڑے لیکن اس طرح کہ اس کا منہ قبر کی طرف ہو او رپشت اس کی طرف نہ کرے اس وقت یہ کہے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا بابَ الْمَقامِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا شَرِیکَ الْقُرْآنِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَ الْخِصامِ،
آپ پر سلام ہو اے اہل ایمان کے مقام کے دروازہ آپ پر سلام ہو اے ہم مرتبہ قرآن آپ پر سلام ہو اے دشمنوں پر حجت
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَفِینَةَ النَّجاةِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا مَلائِکَةَ رَبِّی الْمُقِیمِینَ فِی ھذَا الْحَرَمِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَبَداً مَا بَقِیتُ وَبَقِیَ اللَّیْلُ وَالنَّھارُ
آپ پر سلام ہو اے کشتی نجات آپ پر سلام ہو اے میرے رب کے فرشتو جو اس حرم میں اقامت رکھتے ہیں سلام ہو آپ پر ہمیشہ ہمیشہ جب تک میں باقی ہوں اور رات دن باقی ہیں
پھر یہ کہے:
إنَّا لِلہِ وَ إنَّا إلَیْہِ رَاجِعُونَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إلاَّ بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ۔
ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف پلٹنے والے ہیں اور نہیں حرکت اور نہیں قوت مگر وہ جو خدا ئے بلند و بزرگ سے ملتی ہے۔
اسکے ساتھ حرم پاک سے باہر آجائے سید ابن طاؤس اور شیخ محمد بن المشہدی فرماتے ہیں کہ جو زائر اسطرح عمل کرے گا تو گویا وہ اس شخص کی مثل ہے جس نے خدائے تعالیٰ کی عرش پر زیارت کی ہو۔