مؤلف کہتے ہیں کہ یہ زیارت، زیارت وارث کے نام سے معروف ہے اسکا ماخذ شیخ طوسی (رح) کی کتاب مصباح المتھجد ہے جوکہ عطا کے نزدیک مشہور اور متعبر کتب میں سے شمار ہوتی ہے۔یہاں ہم نے اسے براہ راست مصباح ہی سے نقل کیا ہے۔ اورزیارت شہداء میں اس کے آخری جملے یہی تھے جو ہم نے ذکر کیے ہیں یعنی فیالیتنی معکم فا فوز معکم پس وہ زائد جملے جو بعض لوگوں نے ان کے ساتھ تحریر کیے ہیں۔ مثلاً فی الجنان مع النبیین و الصدیقین و الشھدآء والصالحین و حسن أولئک رفیقا السلام علی من کان فی الحآئر منکم و علی من لم یکن فی الحائر معکم۔الخ یہ سب زائد اور بے جوڑ جملے ہیں جن کا اس زیارت سے کوئی ربط نہیں ہے۔چنانچہ ہمارے شیخ معظم نے اپنی کتاب لؤلؤ والمرجان میں فرمایا ہے کہ ان کلمات میں کئی ایک جھوٹ ہیں ان میں ارتکاب بدعت کے علاوہ فرمان امام(ع) پر زیادتی کی جسارت بھی کی گئی ہے یہ اس طرح معروف ہو گئے ہیں کہ ابا عبد اللہ کے نورانی مرقد فرشتوں کے اترنے کی جگہ اور انبیا و مرسلین کی اس جائے طواف کے سامنے ہزاروں مرتبہ دوہرائے جا رہے ہیں لیکن کوئی بھی اس پر اعتراض نہیں کرتا اس جھوٹ کو دہرانے اور گناہ کا ارتکاب کرنے سے مانع نہیں ہوتا اس کے ساتھ ساتھ یہ کلمات عوام میں سے بے خبر افراد کے مرتب کردہ دعا و زیارت کے مجموعوں میں جگہ پاگئے ہیں جو کسی نہ کسی نام سے چھپ کر عوام کے ہاتھوں تک پہنچ گئے ہیں اور پھر ایک بے خبر کی کتاب سے دوسرے بے خبر کی کتاب میں نقل ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان ادعیہ و زیارات کی حیثیت دینی طلبہ پر بھی مشتبہ ہو گئی اور وہ درست و نا درست میں امیتاز نہیں کر پاتے مثلاً ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک طالب علم ان جھوٹے کلمات کو شہداء کربلا کے حضور پڑھ رہا تھا میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ میری طرف متوجہ ہوا میں نے کہا کہ کیا اہل علم کے لئے یہ بات قبیح نہیں ہے کہ وہ ان مقدسین کے سامنے ایسے جھوٹے کلمات دوہرائے؟ اس نے کہا کیا یہ روایت شدہ نہیں؟ میں نے تعجب کیا اور کہا کہ نہیں یہ روایت شدہ نہیں ہیں۔ اس نے کہا کہ میں نے اسے کتاب میں دیکھا ہے میں نے کہا کون سی کتاب میں دیکھا ہے؟ وہ بولا کہ مفتاح الجنان میں اس پر میں خاموش ہو گیا کیونکہ جو شخص اس قدر بے اطلاع و بے خبر ہو کہ ایک عام آدمی کے تالیف کردہ مجموعے کو کتاب کہے اور اسے مستند سمجھے تو وہ اس قابل نہیں کہ اس سے بات کی جائے۔ اس مقام پرشیخ مرحوم نے اور بھی بہت کچھ فرمایا ہے یعنی عوام کو ان جزئی امور اور چھوٹی چھوٹی بدعتوں جیسے غسل اویس قرنی یا ابو درداء کی آش جو معاویہ کا تابع اور مخلص ساتھی تھا‘ یا چپ کا روزہ کہ جس میں دن بھر بات نہ کی جائے اور دیگر ایسی چیزیں کہ جن سے کوئی عوام کو منع نہ کرے تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ ہر مہینے اور ہر سال کوئی نہ کوئی نیا پیغمبر یا امام پیدا ہو گا اور لوگ گروہ گروہ ہو کر دین خدا سے نکل جائیں گے یہاں شیخ مرحوم کا کلام اختتام کو پہنچا۔ اب یہ فقیر عرض کرتا ہے کہ اس عالم جلیل کے کلام پر بہت زیادہ غور و فکر کریں کہ جو شرع مقدس کی روش سے واقف ہیں‘ ان کے دل میں یہ غم انگیز بات اس لیے آئی کہ وہ اس سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو ان لوگوں کی نسبت بہتر طور پر جانتے تھے جو علوم اہل بیت سے بے بہرہ اور بے اطلاع ہیں۔ جنہوں نے چند اصطلاحوں اور چند الفاظ کے جاننے کو کافی سمجھ رکھا ہے وہ اس طرح کی باتوں کی خرابی کا احساس نہیں کرتے بلکہ ان کو درست قرار دیتے اور بہتر تصور کرتے ہوئے انہی کے موافق عمل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصباح المتہجد الاقبال‘ مہج الدعوات‘ جمال الاسبوع‘ مصباح الزائر‘ بلد الامین‘ جنۃ الواقیہ‘ مفتاح الفلاح مقباس‘ ربیع الاسابیع‘ تحفہ اور زاد المعاد جیسی بلند پایہ کتابیں نظر انداز اور فراموش ہو گئی اور ان کی جگہ یہ احمقانہ و جاہلانہ مجموعے رائج ہو گئے ہیں کہ جن میں دعائے مجیر جو کہ ایک مستند دعاہے اس میں اسی ﴿80﴾ جگہوں پر لفظ ’’بعفوک‘‘ بڑھایا گیا ہے اور اس پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی اسی طرح دعائے جوشن جو سو فصلوں پر مشتمل ہے اس کی ہر فصل کے لیے الگ الگ خاصیت گھڑی گئی ہے اور منقولہ زیارات کے ہوتے ہوئے زیارت مفجعہ بنائی گئی ہے یعنی جعلی زیارتیں گھڑی گئی ہیں دعا حبّی جعلی ہے۔ معتبر دعائیں جو روایت شدہ ہیں ان کے مضامین بلند اور کلمات شفاف و پر معنی ہیں۔ ان کی موجودگی میں ایک بے ربط اور بے سوز دعا وضع کی گئی اور اس کا نام حبی رکھا گیا ہے اسے عرش سے نازل شدہ بتایاگیا ہے اوراسکے اتنے فضائل گنائے گئے ہیں کہ انسان حیرت میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ مثلاً اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ معاذ اللہ جبرائیل(ع) نے حضرت رسول خدا(ص) کو حق تعالیٰ کا یہ پیغام دیا کہ جو شخص اس دعا کو اپنے پاس رکھے گا میں اسے عذاب نہ کروں گا۔ اگرچہ وہ جہنم کا مستحق ہو اس نے اپنی زندگی گناہوں میں بسر کی ہو اور کبھی بھی مجھے سجدہ نہ کیا ہو میں اس شخص کو ستر ہزار نبیوں کا ثواب عطا کروں گا۔ ستر ہزار زاہد اور ستر ہزار شہید ستر ہزار نماز گزاروں کا ثواب دوں گا اس کو ستر ہزار بے لباس افراد کو لباس پہنانے کا ثواب دوں گا‘ ستر ہزار بھوکے افراد کو کھانا کھلانے کا ثواب عنایت کروں گا۔ اور اسے صحراؤں کی ریت کے ذروں کی تعداد جتنا ثواب بخشوں گا نیز اس کو زمین کی ستر ہزار بارگاہوں کا ثواب نبی اکرم (ص) کی مہر نبوت کا ثواب‘ عیسیٰ(ع) روح اللہ‘ ابراہیم(ع) خلیل اللہ ‘ اسماعیل(ع) ذبیح اللہ‘ موسیٰ(ع) کلیم اللہ‘ یعقوب(ع) نبی اللہ و آدم(ع) صفی اللہ اور جبرائیل(ع)، میکائل(ع)، اسرافیل(ع) اور عزرائیل(ع) اور تمام فرشتوں کا ثواب دوں گا۔ اے محمد(ص) جو بھی شخص اس عالی شان دعا کو پڑھے یا اپنے پاس رکھے گا تو میں اسے بخش دوں گا اور مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس کو عذاب کروں۔ تاآخر اور مناسب تو یہ ہے کہ انسان ان مضامین کو سن کر ہنسنے کی بجائے روئے۔
?