• AA+ A++

مسجد کوفہ میں امام سجاد علیه السلام کی نماز

مؤلف کہتے ہیں کہ سید عبدالکریم بن طاؤس نے فرحتہ الغرٰی میں روایت کی ہے کہ امام زین العابدینؑ کوفہ میں داخل ہوئے اور مسجد میں تشریف لائے وہاں ابو حمزہ ثمالی موجود تھے جن کا کوفہ کے عبادت گزاروں اور بزرگ لوگوں میں شمار ہوتا تھا حضرت نے وہاں دو رکعت نماز ادا کی ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے اس سے زیادہ پاکیزہ لہجہ کبھی نہیں سنا تھا۔ میں ان کے نزدیک گیا تاکہ سنوں وہ کیا کہہ رہے ہیں چنانچہ میں نے سنا کہ وہ فرما رہے ہیں :

اِلٰھِیْ اِنْ کَانَ قَدْ عَصَیْتُکَ فَاِنِّیْ قَدْ اَطَعْتُکَ فِیْ أَحَبِّ الْأَشْیَاءِ اِلَیْکَ

میرے معبود! اگر تیری نا فرمانی کی ہے تو بے شک میں نے تیری پسندیدہ چیزوں میں تیری اطاعت بھی کی ہے۔

اور یہ ایک مشہور دعا ہے ۔ مؤلف کہتے ہیں کہ یہ دعا اعمال کوفہ میں ذکر کی جائے گی اور ابو حمزہ نے بیان کیا ہے کہ وہ بزرگوار ساتویں ستون کے قریب آئے ،اپنے جوتے اتارے اور کھڑے ہو گئے پھر اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھا کر ایک تکبیر کہی کہ جس کی دہشت سے میرے بدن کے تمام رونگٹے کھڑے ہو گئے پھر انہوں نے چار رکعت نماز ادا کی جس میں رکوع و سجود انتہائی خلوص سے انجام دیئے اس کے بعد یہ دعا پڑھی اِلَھِیْ اِنْ کُنْتُ قَدْ اَعْصَیْتُکَ تا آخردعا اور سابقہ روایت کے مطابق امام (ع) اٹھے اور چل دیئے ابو حمزہ نے کہا کہ میں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا اس طرف ہم کوفہ کے باہر اونٹ بٹھانے کی جگہ پر آ گئے ۔میں نے دیکھا وہاں ایک حبشی غلام ہے جس کے پاس ایک زخمی اونٹ اور اونٹنی ہے ۔ میں نے اس سے پوچھا یہ شخص کون ہے ؟ اس شخص نے کہا اَوَ یخفیٰ عَلَیْکَ شمائلہ۔۔۔  آیا تم نے اسے شکل و صورت سے نہیں پہچانا وہ علی(ع) بن الحسین (ع)ہیں ابو حمزہ کہتے ہیں یہ سنتے ہی میں نے خود کو ان کے قدموں میں ڈال دیا تا کہ ان کو بوسہ دوں۔ مگر آنجناب نے مجھے ایسا نہ کرنے دیا اپنے ہاتھ سے میرا سر اٹھایا اور فرمایا ایسا مت کرو کیونکہ سوائے خدائے عز و جل کے کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں۔ میں نے عرض کی: اے فرزند رسول آپ یہاں کس لئے تشریف لائے ہیں؟ فرمایا وہی کام تھا جو تونے دیکھا کہ میں نے مسجد کوفہ میں نماز ادا کی ہے اگر لوگوں کو اس نماز کی فضیلت کا علم ہوتا تو وہ بچوں کی طرح گھٹنوں کے بل چل کر بھی یہاں آتے ۔ یعنی ہر تکلیف اٹھا کر یہاں پہنچتے پھر فرمایا کہ آیا تم چاہتے ہو کہ میرے ساتھ ہو کر میرے جد بزرگوار علی ابن ابی طالبؑ کی زیارت کرو ، میں نے عرض کی کہ ہاں میں آپ کے ہمراہ یہ زیارت کرنا چاہتا ہوں لہذا جب آپ روانہ ہوئے اور میں آپ کے ناقہ کے سائے میں چلنے لگا آپ مجھ سے گفتگو فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نجف اشرف پہنچ گئے وہاں سفید روضہ تھا جو نور سے دمک رہا تھا آپ ناقہ سے اتر کر پیادہ ہوگئے اپنے دونوں رخسارے اس زمین پر رکھے اور فرمایا: اے ابو حمزہ ! یہ میرے جد بزرگوار علی ابن ابی طالبؑ کی قبر ہے : پھر ایک زیارت پڑھی ،جس کا آغاز یوں ہوتا ہے :

اَلسَّلاَمُ عَلَیٰ اِسْمِ اللهِ الرَّضِیَّ وَنُوْرِ وَجْھِہٖ الْمُضِیٓئِ

سلام ہو خدا کے اس نام پر جو اس کا پسندیدہ اور اس کا مظہر ہے ۔

اس کے بعد آپ نے اس قبر اطہر کو الوداع کہا اور مدینے کی طرف روانہ ہوگئے اور میں کوفہ واپس آ گیا۔

مؤلف کہتے ہیں کہ فرحتہ الغریٰ میں سید ابن طاؤس کی اس زیارت کو نقل نہ کرنے پر مجھے افسوس ہوا میں نے امیرالمؤمنینؑ کے لئے منقول ایک ایک زیارت تلاش کی اور اسے دیکھا لیکن مجھے وہ زیارت نہ ملی ،جس کی ابتداء ان دو جملوں سے ہوتی ہو ،مگر یہ زیارت شریف کہ جس کا پہلا جملہ اس کے موافق اور دوسرا اس سے مختلف ہے ۔پس ممکن ہے کہ یہ وہی زیارت ہو اور اس کا یہ اختلاف چنداں اثر نہیں رکھتا ۔ اگر کوئی کہے کہ اس زیارت کا آغاز وہی :

سَلاَمُ اللهِ وَسَلاَمُ مَلاَئِکَتِہٖ

سلام ہو خدا کا اور سلام ہو اس کے فرشتوں کا سلام ہو

ہے نہ کہ

اَلسَّلاَمُ عَلَیٰ اِسْمِ اللهِ 

 سلام ہو خدا کے اس نام پر

تو میں کہوں گا اس کا آغاز:

اَلسَّلاَمُ عَلَیٰ اِسْمِ اللهِ الرَّضِیَّ

سلام ہو خدا کے اس نام پرجو اس کا پسندیدہ ہے ۔

اور دیگر سلام اجازت داخلہ اور طلب رخصت کیلئے ہیں اور اس کی دلیل امیرالمؤمنینؑ کے روز ولادت کی زیارت ہے جو ہماری زیر بحث زیارت سے بہت حد تک مشابہت رکھتی ہے ۔جو اس کی طرف رجوع کرے اسے معلوم ہو جائے گا نیز معلوم ہونا چاہیے کہ زیارت ششم اور زیارت روز ولادت میں یہ دو جملے بجز لفظ نور کے شامل ہیں لیکن وہ زیارت کے آغاز میں نہیں آئے ہیں۔ وﷲ اعلم۔ مختصر یہ کہ زیارات مطلقہ میں سے یہ سات زیارتیں ہی ہمارے لئے کافی ہیں جو ہم نے نقل کر دی ہیں اور اگر کوئی اس سے زیادہ کا خواہش مند ہو تو وہ زیارت جامعہ پڑھے یہ زیارت مبسوطہ ہے کہ جو اس کے بعد ہم روز غدیر کے لئے نقل کریں گے کیونکہ اس زیارت کے ہر جگہ اور ہر وقت پڑھنے کی روایت ہوئی ہے ۔یاد رہے کہ اس زیارت اور نماز کو امیرالمؤمنینؑ کے حرم مطہر میں پڑھنے کو غنیمت شمار کرے ان بزرگوار اور دیگر آئمہ کے قرب میں ایک نماز دو لاکھ نمازوں کے برابر ہے امام جعفر صادق ؑ سے منقول ہے کہ جو شخص واجب الاطاعت امام کی زیارت کرے اور وہاں چار رکعت نماز پڑھے تو اس کیلئے حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا نیز ہم نے ہدیۃ الزائرین میں قبر امیرالمؤمنینؑ کی مجاورت کی فضیلت نقل کی ہے۔

لیکن شرط یہ ہے کہ امیرالمؤمنینؑ کے قرب کا حق ملحوظ رکھا جائے جو کہ کافی مشکل ہے اور ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے اور اس مقام پر اس کا ذکر کیا جانا ضروری ہے۔پس خواہش مند اہل ایمان کتاب کلمہ طیبہ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

مسجد کوفہ میں نماز حاجت

امام جعفر صادق علیه السلام سے مروی ہے کہ جو آدمی مسجد کوفہ میں دو رکعت نماز ادا کرے کہ ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ فلق سورہ ناس سورۂ اخلاص سورۂ کافرون سورۂ نصر سورہ قدر اور سورہ اعلی پڑھے: سلام کے بعد تسبیح فاطمۃ الزہراءؑ پڑھے اور پھر جو حاجت بھی رکھتا ہوطلب کرے تو حق تعالیٰ اس کی دعا قبول اور حاجت پوری کرے گا۔ مؤلف کہتے ہیں مذکورہ بالا دو رکعت نماز میں سورتوں کی جو ترتیب ہم نے لکھی ہے وہ سید کی کتاب مصباح میں درج ترتیب کے مطابق ہے لیکن شیخ طوسی نے امالی میں سورہ قدر کو سورہ اعلی کے بعد رکھا ہے اوریہ بھی ممکن ہے کہ ان سورتوں کی قرائت میں کوئی خاص ترتیب رکھنا ضروری نہ ہواور سورہ حمد کے بعد ان سات سورتوں کو کسی بھی ترتیب سے پڑھ لینا کافی ہو۔ وﷲ اعلم۔

?