ان امام زادگان میں سے دوسرے بزرگ شہزادہ عبد العظیم ہیں کہ ان کا سلسلہ نسب چار واسطوں سے امام حسن علیه السلام تک پہنچتا ہے یعنی عبدالعظیم بن عبداللہ بن علی بن الحسن بن زید بن الحسن بن علی ابن ابی طالب آپ کی قبر شریف تہران کے محلہ رے میں مشہور و معروف ہے اور آج کل اس محلہ کو شاہ عبدالعظیم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ آپ کا روضہ مبارک عوام و خواص کی زیارت گاہ اور جائے پناہ ہے آپ کے مقام کی بلندی اور مرتبے کی بڑائی محتاج بیان نہیں کیونکہ آپ خاندان نبوت کے فرد ہونے کے علاوہ عظیم محدثین اور اجل علماء میں سے ہیں آپ بڑے عابد و زاہد اور بہت متقی و پرہیزگار تھے اور امام محمد تقیؑ اور امام نقیؑ کے خاص صحابہ میں سے تھے۔ آپ کو ان ہر دو آئمہؑ کے حضور خصوصی تعلق و توسل حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ عبدالعظیم نے ان دونوں معصومین(ع) سے بہت سی احادیث روایت کی ہیں یہی بزرگ ’’خطب امیر المومنین علیه السلام ‘‘ کے نام سے مشہور کتاب کے مؤلف ہیں نیز آپ نے ’’یوم ولیلہ‘‘ نامی کتاب میں اپنے عقائد درج فرمائے اور یہ کتاب امام علی نقی علیه السلام کی خدمت میں پیش کی تھی چنانچہ امامؑ نے اس کتاب کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا کہ اے اباالقاسم خدا کی قسم یہی وہ دین ہے جو خدائے تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے پسند کیا ہے پس خداوند جہاں تمہیں دنیا و آخرت میں اس عقیدہ و دین پر قائم رکھے۔ صاحب بن عباد نے آپ کے حالات میں ایک مختصر رسالہ لکھا ہے جسے ہمارے استاد علامہ نوری مرحوم نے مستدرک الوسائل کے آخر میں نقل کر دیا ہے۔ اس رسالے اور رجال نجاشی میں یہ واقعہ منقول ہے کہ حضرت شاہ عبدالعظیم(ع) بادشاہ وقت کے خوف سے جلا وطن ہو کر شہر بہ شہر پھرتے اور اپنے آپ کو ایک قاصد ظاہر کرتے رہے حتیٰ کہ آپ شہررے پہنچے اور خود کو ساربانوں میں شامل کر کے پوشیدہ ہو رہے لیکن بقول نجاشی سکۃ الموالی کے بعض شیعوں کے سرداب میں رہا کرتے کہ رات کو عبادت کرتے اور دن میں روزہ رکھتے تھے جب کبھی اس سرداب سے باہر آتے تو اس قبر کی زیارت کرتے تھے جو اب آپ کی قبر کے سامنے واقع ہے آپ فرماتے تھے کہ یہ امام موسیٰ کاظمؑ کے ایک فرزند کی قبر ہے شروع شروع میں تو آپ کو صرف چند ایک شیعہ بزرگ جانتے پہچانتے تھے لیکن کچھ عرصہ کے بعد عام لوگوں نے بھی آپ کو پہچان لیا انہی ایام میں ایک شیعہ بزرگ نے عالم خواب میں حضرت رسول(ص) کو دیکھا کہ آپ فرمارہے ہیں کہ سکۃ الموالی سے جا کر میرے فرزند کو عبدالجبار کے باغ میں سیب کے درخت کے نیچے دفن کریں گے اور یہ وہی جگہ ہے جہاں اب شاہ عبدالعظیم مدفون ہیں یہ خواب دیکھ کر وہ شیعہ بزرگ اس باغ کے مالک کے پاس گئے تاکہ وہ باغ اوردرخت خرید لیں، باغ کے مالک نے پوچھا کہ آپ کس لیے باغ خرید کرتے ہیں؟ انہوں نے اپنا خواب باغ کے مالک سے بیان کیا تو اس نے بھی اپنا ایسا ہی خواب سنایا اور کہا کہ میں نے یہ باغ ان سید پاک اور دیگر شیعہ مومنین کیلئے وقف کر دیا ہے کہ وہ اپنے متوفیوں کو یہاں دفن کیا کریں۔ پھر انہی ایام میں شاہ عبدالعظیم بیمار پڑے اور کچھ دنوں بعد اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جب غسل دینے کیلئے ان کا لباس اتارا گیا تو ان کی جیب میں سے ایک رقعہ نکلا جس میں آپ نے اپنا نام و نسب لکھا ہوا تھا کہ میں ابوالقاسم عبدالعظیم ہوں میں فرزند ہوں عبداللہ کا جو فرزند ہیں علی کے اور وہ فرزند ہیں حسن کے اور وہ فرزند ہیں زید کے اور وہ امام حسنؑ کے فرزند ہیں۔ صاحب بن عباد نے شاہ عبدالعظیم کے علم و فضل کے بارے میں ابوتراب رویانی کی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ابو حماد رازی سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے میں سامرہ میں ایک روز امام علی نقی علیه السلام کی خدمت میں پہنچا اور حلال و حرام سے متعلق بہت سے مسائل آپ سے دریافت کیے اور آپ نے انکے جوابات ارشاد فرمائے جب میں رخصت ہونے لگا تو آپ نے فرمایا کہ اے ابو حماد اگر اپنے شہررے میں تمہیں کوئی مشکل مسئلہ پیش آئے تو جناب عبدالعظیم بن عبداللہ حسنی کے پاس جا کر پوچھ لینا اور انکو میرا سلام بھی پہنچا دینا محقق میر داماد(رح) نے کتاب رواشح میں تحریر کیا ہے کہ شاہ عبدالعظیم کی فضلیت میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں اور ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ جو شخص انکی زیارت کو جائے جنت اس کیلئے واجب ہے شیخ شہید ثانی(رح) نے حاشیہ میں بعض نسابین کے حوالے سے اسی روایت کا خلاصہ نقل کیا ہے ابن بابویہ(رح) اور ابن قولویہ نے معتبر سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ شہررے کا ایک شخص امام علی نقی علیه السلام کی خدمت میں آیا تو حضرت نے پوچھا کہ تم کہاں تھے؟ اس نے عرض کی کہ میں امام حسین علیه السلام کی زیارت کرنے گیا ہوا تھا آپ نے فرمایا کہ تم اپنے شہر میں سید عبدالعظیم کی قبر کی زیارت کرتے تو اس شخص کی مانند ہوتے جس نے امام حسین علیه السلام کی زیارت کی ہو۔ مولف کہتے ہیں علماء کرام نے شاہ عبدالعظیم کیلئے کوئی مخصوص زیارت نقل نہیں کی تاہم فخر المحققین آقا جمال الدین(رح) نے اپنی کتاب مزار میں فرمایا ہے کہ انکی زیارت یوں پڑھنا چاہیے:
زیارت شاہ عبدالعظیم
اَلسَّلَامُ عَلَی آدَمَ صَفْوَةِ اللهِ اَلسَّلَامُ عَلَی نُوحٍ نَبِیِّ اللهِ اَلسَّلَامُ عَلَی إبْراھِیمَ خَلِیلِ اللهِ
سلام ہو آدم پر جو خدا کے بزگزیدہ ہیں سلام ہو نوح(ع) پر جو خدا کے نبی ہیں سلام ہو ابراہیم(ع) پرجو خدا کے دوست خاص ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَی مُوسَی کَلِیمِ اللهِ اَلسَّلَامُ عَلَی عِیسَی رُوحِ اللهِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللهِ
سلام ہو موسیٰ(ع) پر جو خدا کے کلیم ہیں سلام ہو عیسیٰ(ع) پر جو روح خدا ہیں آپ پر سلام ہو اے خدا کے رسول(ص)
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَیْرَ خَلْقِ اللهِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا صَفِیَّ اللهِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مُحَمَّدَبْنَ عَبْدِ اللهِ خاتَمَ النَّبِیِّینَ
آپ پر سلام ہو اے مخلوق خدا میں بہترین سلام ہو آپ پر اے خدا کے پسند کردہ آپ پر سلام ہو اے محمد بن عبداللہ (ص)کہ آپ نبیوں کے خاتم ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَمِیرَالْمُؤْمِنِینَ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طالِبٍ وَصِیَّ رَسُولِ اللهِ
سلام ہوآپ پر اے مومنوں کے امیر علی بن ابی طالب(ع) کہ آپ رسول خدا(ص)کے قائم مقام ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَا فاطِمَۃُ سَیِّدَةَ نِساءِ الْعالَمِینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُما یَا سِبْطَیِ الرَّحْمَةِ وَسَیِّدَیْ شَبابِ أَھْلِ الْجَنَّةِ
آپ پر سلام ہو اے فاطمہؑ عالمین کی عورتوں کی سردار سلام ہو آپ دونوں پر اے پیغمبرِ رحمت کے نواسو(ع) اور اہل جنت کے جوانوں کے سید و سردار
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ سَیِّدَ الْعابِدِینَ وَ قُرَّةَ عَیْنِ النَّاظِرِینَ
آپ پر سلام ہو اے علی بن الحسین(ع) کہ آپ عبادت گزاروں کے سردار اور بصیرت
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَامُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ باقِرَ الْعِلْمِ بَعْدَ النَّبِیِّ
والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں آپ پر سلام ہو اے محمد بن علی(ع) کہ آپ بعدِ پیغمبر علم کے پھیلانے والے ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ الصَّادِقَ الْبارَّ الْاََمِینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مُوسَی بْنَ جَعْفَرٍ الطَّاھِرَ الْطُّھْرَ
آپ پر سلام ہو اے جعفر بن محمد(ع) کہ آپ راستگو خوش کردارامانتدار ہیں سلام ہو آپ پر اے موسیٰ بن جعفر(ع) کہ آپ پاک ہیں پاک شدہ ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَلِیَّ بْنَ مُوسَی الرِّضَا الْمُرْتَضی اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ التَّقِیَّ
آپ پر سلام ہو اے علی بن موسیٰ(ع) کہ آپ رضا والے ہیں پسندیدہ ہیں آپ پر سلام ہو
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَلِیَّ بْنَ مُحَمَّدٍ النَّقِیَّ النَّاصِحَ الْاََمِینَ
آپ پر سلام ہو اے علی بن محمد(ع) کہ آپ باصفا خیر خواہ امانتدار ہیں آپ پر
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ اَلسَّلَامُ عَلَی الْوَصِیِّ مِنْ بَعْدِہِ
سلام ہو اے حسن بن علی(ع) اور سلام ہو اس امام پر جو ان کے بعد قائم مقام ہوئے
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی نُورِکَ وَسِراجِکَ وَ وَلِیِّ وَلِیِّکَ وَ وَصِیِّ وَصِیِّکَ وَحُجَّتِکَ عَلَی خَلْقِکَ
اے معبود اپنے نور پر رحمت فرما طجو تیرا چراغ تیرے ولی(ع) کے وارث تیرے وصی کے جانشین اور تیری مخلوق پر حجت ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا السَّیِّدُ الزَّکِیُّ وَالطَّاھِرُ الصَّفِیُّ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ السَّادَةِ الْاَطْھَارِ
آپ پر سلام ہو کہ آپ سردار ہیں پاکباز پاک تر پسندیدہ ہیں آپ پر سلام ہو کہ آپ پاک تر سرداروں کے فرزند ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیارِ اَلسَّلَامُ عَلَی رَسُولِ اللهِ وَعَلَی ذُرِّیَّةِ رَسُولِ اللهِ وَرَحْمَۃُاللهِ وَبَرَکاتُہُ
آپ پر سلام ہو کہ آپ چنے ہوئے نیکو کاروں کے فرزند ہیں سلام ہو خدا کے رسول(ص) پر اور خدا کے رسول(ص) کی اولاد پر خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات ہوں۔
اَلسَّلَامُ عَلَی الْعَبْدِ الصَّالِحِ الْمُطِیعِ لِلہِ رَبِّ الْعالَمِینَ وَلِرَسُولِہِ وَلاَِمِیرِالْمُؤْمِنِینَ
سلام ہو خدا کے نیکوکار بندے پر جو تمام جہانوں کے پرودگار اس کے رسول(ص) اور امیر المومنین(ع) کا پیروکار ہے
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَا الْقاسِمِ ابْنَ السِّبْطِ الْمُنْتَجَبِ الْمُجْتَبَیٰ
آپ پر سلام ہو اے ابوالقاسم کہ آپ پیغمبروں کے نیک نواسے حسن مجتبیٰ (ع)کے فرزند ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَنْ بِزِیارَتِہِ ثَوابُ زِیارَةِ سَیِّدِ الشُّھَداءِ یُرْتَجیٰ
آپ پر سلام ہو اے وہ کہ جن کی زیارت پر سید الشہداء کی زیارت کے ثواب کی امید ہے
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ عَرَّفَ اللہُ بَیْنَنا وَبَیْنَکُمْ فِی الْجَنَّةِ وَحَشَرَنا فِی زُمْرَتِکُمْ وَأَوْرَدَنا حَوْضَ نَبِیِّکُمْ
سلام ہو آپ پر خدا جنت میں ہمارے اور آپ کے درمیان شناسائی کرائے ہمیں آپکے گروہ میں اٹھائے اور آپ میں سے نبی(ص) کے حوض کوثر پر وارد کرے
وَسَقَانا بِکَأْسِ جَدِّکُمْ مِنْ یَدِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طالِبٍ صَلَواتُ اللهِ عَلَیکُمْ أَسْأَلُ اللهَ أَنْ یُرِیَنا فِیکُمُ السُّرُورَ وَالْفَرَجَ
اور ہمیں آپ کے نانا(ص) کے جام کیساتھ علی بن ابی طالب(ع) کے ہاتھوں سیراب فرمائے آپ پر خدا کی رحمتیں ہوں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمیں آپ لوگوں میں مسرت وخوشحالی دکھائے
وَأَنْ یَجْمَعَنا وَ إیَّاکُمْ فِی زُمْرَةِ جَدِّکُمْ مُحَمَّدٍ وَأَنْ لاَ یَسْلُبَنا مَعْرِفَتَکُمْ إنَّہُ وَلِیٌّ قَدِیرٌ
اور ہمیں اور آپکو آپ کے نانا حضرت محمد(ص) کے گروہ میں اکٹھا کرے وہ ہم سے آپ کی معرفت واپس نہ لے کہ وہ حاکم ہے قدرت والا۔
أَتَقَرَّبُ إلَی اللهِ بِحُبِّکُمْ وَالْبَرائَةِ مِنْ أَعْدائِکُمْ وَالتَّسْلِیمِ إلَی اللهِ راضِیاً بِہِ غَیْرَ مُنْکِرٍ وَلاَ مُسْتَکْبِرٍ
میں قرب خدا چاہتا ہوں بواسطہ آپکی محبت آپکے دشمنوں سے بیزاری کے ذریعے اور رضا خدا پر راضی رہتے ہوئے بغیر دل تنگ ہوئے اورتکبرکرنے
وَعَلَی یَقِینِ مَا أَتیٰ بِہِ مُحَمَّدٌ نَطْلُبُ بِذلِکَ وَجْھَکَ یَا سَیِّدِی
اور اس چیز پر یقین رکھتے ہوئے جو محمد(ص) لائے ہیں ان چیزوں کے ذریعے ہم تیری توجہ چاہتے ہیں اے میرے سردار !
اَللّٰھُمَّ وَرِضاکَ وَالدَّارَ الْاَخِرَةَ یَا سَیِّدِی وَابْنَ سَیِّدِی اشْفَعْ لِی فِی الْجَنَّةِ
اے معبود تیری رضا اور آخرت کی بہتری چاہتے ہیں اے میرے سردار اور میرے سردار کے فرزندحصول جنت میں میری سفارش کریں
فَإِنَّ لَکَ عِنْدَ اللهِ شَأْناً مِنَ الشَّأْنِ۔ اَللّٰھُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ أَنْ تَخْتِمَ لِی بِالسَّعادَةِ فَلاَ تَسْلُبْ مِنِّی مَا أَنَا فِیہِ
کیونکہ آپ خدا کے ہاں بڑی عزت و شان رکھتے ہیں اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرا انجام سعادت پر فرما پس جس گروہ میں ہوں اسی میں رہنے دے
وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إلاَّ بِاللهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ۔ اَللّٰھُمَّ اسْتَجِبْ لَنا وَتَقَبَّلْہُ بِکَرَمِکَ
اور نہیں ہے طاقت و قوت مگر وہ جو بلند و بزرگ خدا سے ملتی ہے اے معبود ہماری دعائیں قبول و منظور فرما اپنی بزرگی
وَعِزَّتِکَ وَبِرَحْمَتِکَ وَعافِیَتِکَ وَصَلَّی اللہُ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ أَجْمَعِینَ وَسَلَّمَ تَسْلِیماً یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔
اپنی عزت اپنی رحمت اور اپنی بخشش کے ذریعے اور خدا حضرت محمد(ص) اور ان کی ساری آل(ع) پر درود بھیجے اور سلام بہت بہت سلام اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔