جاننا چاہیے کہ ایسی بہت سی روایات آئی ہیں کہ جن کے مطابق امام حسینؑ کی قبر مبارک کی خاک میں سوائے موت کے ہر تکلیف اور مرض سے شفا ہے اس میں ہر بلا و مصیبت سے امان اور ہر خوف خطر سے تحفظ کی تاثیر ہے۔ اس سلسلے میں اخبار و روایات متواتر ہیں اور اس مقدس خاک کی جو کرامتیں ظاہر ہوئیں ہیں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ یہاں ان سب کا ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ میری کتاب فوائد الرضوّیہ کہ جو علماء امامیہ کے حالات میں ہے میں نے اس میں محدث جلیل القدیر آقا سید نعمت اللہ جزائریؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ انہوں حصول علم میں بڑی زحمت اٹھائی اور بہت تکالیف برداشت کی ہیں۔ آغازِ تعلیم میں چونکہ ان میں چراغ کے خریدنے کی سکت نہ تھی لہذا وہ چاند کی چاندنی میں بیٹھ کر لکھتے پڑھتے تھے چاند کی چاندنی میں بیٹھ کر اتنا زیادہ لکھنے پڑھنے کے نتیجے میں ان کی آنکھوں کی بینائی کمزور ہو گئی چنانچہ وہ اپنی بینائی کی بحالی کیلئے امام حسینؑ کی قبر شریف کی خاک اور عراق میں واقع دیگر ائمہ معصومینؑ کی قبور کی خاک بطور سرمہ استعمال فرماتے تھے پس اس خاک کی برکت سے ان کی آنکھیں ٹھیک ہو گئیں۔ اس کے ساتھ ہی میں نے لکھا ہے کہ ہمارے زمانے کے لوگ جن کا کفار و مشرکین کے ساتھ رہن سہن ہے ممکن ہے وہ اس کرامت پر تعجب کریں کمال الدین دمیری نے حیات العیون میں نقل کیا ہے کہ اژدھا جب ہزار سال کا ہو جاتا ہے تو اس کی آنکھیں اندھی اور بے نور ہو جاتی ہیں تب خدائے تعالیٰ اسے یہ سوجھ عطا کرتا ہے کہ وہ اپنے اندھے پن کو دور کرنے کے لیے اپنی آنکھیں رازیانہ ﴿ایک قسم کی گھاس﴾ پر ملے‘ اس وقت وہ اژدھا اندھا ہونے کے باوجود بیابان سے نکل کر ان باغوں اور جگہوں کی طرف جاتا ہے جہاں رازیانہ گھاس پیدا ہوتی ہے پس وہ طویل راہیں طے کر کے اس گھاس کے پاس پہنچتا اور اپنی آنکھیں اس پر ملتا ہے تو اسکی بینائی پلٹ آتی ہے اس بات کو زمخشری وغیرہ نے بھی نقل کیا ہے ہاں اگرخدائے قدیر نے ایک گھاس میں یہ تاثیر رکھی ہے کہ اندھا اژدھا اس کی تلاش میں جائے تو اس کی آنکھیں پھر سے روشن ہو جائیں تو اس میں کیا تعجب ہو سکتا ہے فرزندان رسول(ص) جو خدا کی راہ میں شہید ہو گئے ہیں ان کی قبور کی خاک میں وہ تمام بیماریوں سے شفا قراردے اور ان کو برکات دینے والی بنا دے تاکہ محبانِ اہل بیتؑ ان سے فائدہ اٹھائیں اور آرام و راحت حاصل کریں یہاں ہم اس مضمون کی چند روایات نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
پہلی روایت
اس روایت میں کہا گیا ہے کہ جنت کی حوریں جب دیکھتی ہیں کوئی فرشتہ کسی مقصد سے زمین پر جا رہا ہے تو وہ اس سے عرض کرتی ہیں کہ ان کیلئے قبر حسینؑ سے خاک شفا اور تسبیح بطور سوغات لے کر آئے
دوسری روایت
معتبر سند کے ساتھ منقول ہے کہ ایک شخص نے بیان کیا امام علی رضاؑ نے میرے لیے خراسان سے کچھ چیزیں ایک پوٹلی میں باندھ کر بھیجیں میں نے اسے کھولا تو اس سے کچھ خاک ملی تب میں نے اسے لے کرآنے والے آدمی سے پوچھا کہ یہ کیسی خاک ہے اس نے کہا یہ امام حسینؑ کی قبر شریف کی خاک ہے امام علی رضاؑ جب بھی کسی کی طرف کوئی چیز یا کپڑا وغیرہ بھیجتے ہیں تو یہ خاک بھی اس کے ساتھ رکھ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ خدا کے اذن و مشیت سے یہ خاک بلاؤں سے امان کا ذریعہ ہے۔
تیسری روایت
عبداللہ ابن ابی یعفور نے امام جعفر صادقؑ سے عرض کی کہ ایک شخص امام حسینؑ کی قبر سے خاک اٹھاتا ہے تو اسے اس سے برکت حاصل ہوتی ہے لیکن دوسرا شخص وہاں سے خاک اٹھاتا ہے تو اسے اس سے کچھ بھی نفع و برکت حاصل نہیں ہوتی حضرتؑ نے فرمایا کہ بات یوں نہیں ہے بخدا جو بھی شخص یہ خاک اٹھائے اوریہ عقیدہ رکھے کہ اسے نفع دے گی تو اس کو ضرور نفع و برکت حاصل ہوتی ہے۔
چوتھی روایت
ابوحمزہ ثمالی سے روایت ہے کہ میں نے امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں عرض کی کہ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے بعض ساتھی امام حسینؑ کی قبر مبارک سے خاک اٹھاتے ہیں اور اس سے شفا حاصل کرتے ہیں آیا اس خاک میں شفا کی تاثیر رکھی گئی ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت کی قبر اطہر اردگردکے چار میل تک کی خاک سے شفا حاصل ہو سکتی ہے اور اسی طرح ہمارے جد بزرگو ار حضرت رسولؐ کی قبر شریف کی خاک، امام حسنؑ، امام زین العابدینؑ اور امام محمدباقرؑ کی قبور کی خاک میں بھی یہ تاثیر موجود ہے پس تم بھی ان قبور سے خاک لیا کرو کہ وہ ہر دکھ کی دوا اور ہر خوف سے امان کا ذریعہ ہے نیز یہ کہ سوائے اس دعا کے جس سے شفا ملتی ہے کوئی اور چیز اس خاک کی برابری نہیں کر سکتی اسے ناپاک جگہ یا ناپاک برتن میں نہ رکھا جائے کہ اس طرح خاک شفا کا اثر زائل ہو جاتا ہے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اسے شفا کی خاطر تو استعمال کرتے ہیں لیکن اس بات پر انہیں بہت کم یقین ہوتا ہے اور اگر کسی کو یقین ہو جائے کہ اس خاک میں شفا ہے تو وہ اس کے لیے کافی ہے اور اسے کسی اور دوا کی حاجت نہیں رہتی اس خاک کے اثر کو کافر جنات زائل کر دیتے ہیں جو خود کو اس سے مس کر لیتے ہیں اس خاک کو جس چیز پررکھا جائے وہ اسے سونگھتے ہیں جس سے اسکی پاکیزہ خوشبو ختم ہو جاتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ کافر جنات انسانوں سے حسد کرتے ہیں جب بھی کوئی شخص حائر حسینی سے خاک اٹھاتا ہے تو وہ کافر جنات خود کو اس سے مس کرنے کیلئے اکھٹے ہو جاتے ہیں جنکی تعداد کو خدا کے علاوہ کو ئی نہیں جانتا حالانکہ فرشتے ان کو روضہ پاک کے قریب آنے سے روکتے رہتے ہیں پس اگر یہ خاک ان کافر جنات کے مس کر لینے سے محفوظ رہ جائے تو جس بیماری کے علاج میں اسے کام میں لایا جائے اس سے ضرور شفا حاصل ہو گی لہذا جب اس خاک کو وہاں سے اٹھائے تو اسے چھپائے رکھے اور اس پر اللہ کا نام زیادہ سے زیادہ پڑھے:
میں نے یہ بھی سنا ہے کہ جو لوگ اس خاک شفا کو وہاں سے لیتے ہیں وہ اسے کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور بعض افراد تواسے جانوروں پر لادے ہوئے بورے میں یا کسی ایسے برتن میں رکھ دیتے ہیں جس کوناپاک ہاتھ لگتے رہتے ہیں پس کیونکر ایسے شخص کو اس سے شفا ملے گی جو اسکا جائز احترام نہیں کرتا اور جو چیز اس کیلئے فائدہ مند ہے اسکو معمولی سمجھے تو وہ اپنے عمل کو فاسد کر دیتا ہے۔
پانچویں روایت
اس روایت میں کہا گیا ہے کہ جو شخص خاک کربلا کو اٹھانا چاہے وہ اسے انگلیوں کے پوروں کیساتھ اٹھائے اور اسکی مقدار چنے کے دانے کے برابر ہو پھر اسے اپنی آنکھوں اور جسم کے دیگر حصوں پر ملے اوریہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ بِحَقِّ ھذِہِ التُّرْبَةِ وَبِحَقِّ مَنْ حَلَّ بِھا وَثَوَیٰ فِیھا وَبِحَقِّ جَدِّہِ وَأَبِیہِ وَٲُمِّہِ وَأَخِیہِ
اے معبود اس خاک کے واسطے سے اور اس کے واسطے سے جو اس میں دفن اور مقیم ہے اور اسکے نانا اسکے بابا اسکی ماں اور اسکے بھائی کے واسطے سے
وَالْاَئِمَّةِ مِنْ وُلْدِہِ وَبِحَقِّ الْمَلائِکَةِ الْحافِّینَ بِہِ إلاَّ جَعَلْتَھا شِفاءً مِنْ كُلِّ داءٍ وَبُرْئاً
ان ائمہؑ کے واسطے سے جو اسکی اولاد میں ہوئے اور ان فرشتوں کے واسطے سے جو اسکے اردگرد ہیں اس خاک کو ہر درد کی دوا بنا دے
وَالْاَئِمَّةِ مِنْ وُلْدِہِ وَبِحَقِّ الْمَلائِکَةِ الْحافِّینَ بِہِ إلاَّ جَعَلْتَھا شِفاءً مِنْ كُلِّ داءٍ
ان ائمہ(ع) کے واسطے سے جو اسکی اولاد میں ہوئے اور ان فرشتوں کے واسطے سے جو اسکے اردگرد ہیں اس خاک کو ہر درد کی دوا بنادے
وَبُرْئاً مِنْ کُلِّ مَرَضٍ، وَنَجاةً مِنْ کُلِّ آفَةٍ، وَحِرْزاً مِمَّا أَخافُ وَأَحْذَرُ۔
اسے ہر بیماری سے ذریعہ صحت اور ہر مصیبت سے بچنے کا ذریعہ بنا نیز اسے میری سپر بنا اس چیز سے جس کا مجھے خوف و خطرہ ہے۔
اسکے بعد اس خاک شفا کو استعمال میں لائے۔ روایت میں آیا ہے کہ امام حسینؑ کی خاک قبر کو مہر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس پر سورہ قدر پڑھے نیز روایت ہوئی ہے کہ جب خاک شفا خود کھائے یا کسی کو کھلائے تو اس وقت کہے:
بِسْمِ اللهِ وَبِاللّٰهِ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ رِزْقاً واسِعاً وَعِلْماً نَافِعاً وَشِفاءً مِنْ كُلِّ داءٍ إنَّکَ عَلَىٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ۔
خدا کے نام سے اور خدا کی ذات سے اے معبود اس خاک کورزق کی فراوانی، علم میں نفع اور ہر بیماری سے شفاکاذریعہ بنا بے شک تو ہر چیز پر اختیار رکھتا ہے۔
مؤلف کہتے ہیں امام حسینؑ کی خاک قبرکے بہت سے فائدے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کو میت کے ساتھ قبر میں رکھنا اس سے کفن پر لکھنا اور اس پر سجدہ کرنا مستحب ہے روایت ہے کہ اس پر سجدہ کرنا سات پردوں کو ہٹا دیتا ہے یعنی یہ قبول نماز کا سبب بن جاتا ہے اور وہ نماز آسمان کی طرف بلند ہو جاتی ہے نیز اس خاک سے تسبیح بنانا اس تسبیح سے ذکر الہی کرنا اور اسے ہاتھ میں رکھنا بڑی فضلیت کا موجب ہے اس خاک سے بنائی گئی تسبیح کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسان کے ہاتھ میں تسبیح کرتی رہتی ہے اگرچہ وہ تسبیح نہ بھی پڑھ رہا ہو اور اس کا یہ تسبیح کرنا اور اس تسبیح کے علاوہ ہے جسے دنیا کی ہر چیز انجام دیتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلَکِنْ لَا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ۔
اور کوئی ایسی چیز نہیں مگر یہ کہ وہ اس کی تسبیح کرتی ہے حمد سے لیکن تم ان چیزوں کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔
اس مفہوم کو مولانا رومیؒ نے یوں ادا کیا ہے:
ترجمہ: ﴿۱﴾ اگر تمہارے باطن کی آنکھ کھل جائے توتم دنیا کے ذر ے ذرے کے رازداں بن جاؤ گے۔ ﴿۲﴾مٹی پانی اور پھول کی گفتگو کو اہل باطن کے کان ہی سنتے ہیں۔ ﴿۳﴾اس دنیا کا ذرہ ذرہ دن رات تم سے سرگوشی کرتے ہوئے کہہ رہا ہے۔ ﴿۴﴾کہ ہم میں سے ہر ایک سنتا، دیکھتا اور سمجھتا ہے لیکن تم نامحرموں کےسامنے ہم چپ رہتے ہیں۔ ﴿۵﴾تم اپنی جان لکڑی پتھر وغیرہ کی جان سے ملا دو اور دنیا کے ہر ذرے کی آواز سنو۔ ﴿۶﴾اس طرح تم جمادات کی تسبیح سنو گے اور تمہارا تخیل تمہیں اس تسبیح کے معنی سے آشنا کرے گا۔ خلاصہ یہ کہ اس روایت میں قبر حسینؑ کی مٹی سے بنائی گئی تسبیح کا جوتسبیح کرنا بیان ہوا ہے وہ اس پاک خاک کی ایک خصوصیت ہے۔
چھٹی روایت
امام علی رضاؑ سے منقول ہے کہ جو شخص خاک شفا کی تسبیح ہاتھ میں لے کر ہر دانے پر یہ پڑھے:
سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ لاَ اِلَہَ اِلاَّ اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ۔
پاک تر ہے خدا، حمد ہے خدا کے لیے خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور خدا بزرگتر ہے۔
پس خدائے تعالی تسبیح کے ہر ہر دانے کے عوض اس کے لیے چھ ہزار نیکیاں لکھے گا اس کے چھ ہزار گناہ معاف کر دے گا ۔ اس کے چھ ہزار درجے بلند کرے گا اور اس کیلئے چھ ہزار شفاعتیں لکھے گا۔ امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے کہ جو شخص خاک کربلا سے بنائی ہوئی پختہ تسبیح پھیرے اور ایک بار استغفار کرے تو حق تعالیٰ اس کیلئے ستر بار استغفار لکھے گا اور اگر اس تسبیح کو محض ہاتھ میں لیے رہے تو بھی اس کے ہر دانے کے عوض اس شخص کیلئے سات بار استعفار لکھی جائے گی۔
ساتویں روایت
یہ ایک معتبر روایت ہے جس میں منقول ہے کہ جب امام جعفر صادقؑ عراق آئے تو لوگوں کا ایک گروہ آپکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ ہمیں اس بات کا تو علم ہے کہ امام حسینؑ کی خاک قبر ہر درد کی دوا ہے تو کیا یہ خاک پاک ہرخوف وخطر سے امن کا موجب بھی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہی ہے اور جو شخص یہ چاہے کہ ہر خطرے سے امان میں رہے تو وہ خاک شفا کی بنی ہوئی تسبیح ہاتھ میں پکڑتے ہوئے تین بار یہ دعا پڑھے:
أَصْبَحْتُ اَللّٰھُمَّ مُعْتَصِماً بِذِمامِکَ وَجِوَارِکَ الْمَنِیعِ الَّذِی لاَ یُطاوَلُ وَلاَ یُحاوَلُ مِنْ شَرِّ کُلِّ غَاشِمٍ
صبح کی میں نے اے معبود کہ محفوظ ہوں تیری نگہداری وتیری پناہ میں جو بچاؤ کرتی ہے کہ نہ دست درازی کرتا ہے نہ گھیرتا ہے کوئی فریب کار
وَطَارِقٍ مِنْ سائِرِ مَنْ خَلَقْتَ وَمَا خَلَقْتَ مِنْ خَلْقِکَ الصَّامِتِ وَالنَّاطِقِ فِی جُنَّةٍ مِنْ کُلِّ مَخُوفٍ بِلِباسٍ سابِغَةٍ حَصِینَةٍ
اور تاریکی میں آزار پہنچانے والا تیری تمام مخلوقات میں سے اور نہ وہ جو مخلوق میں سے تو نے پیدا کیا چپ رہنے اور بولنے والے میں ہر خطرے سے حفاظت میں ہوں کہ پہنے ہوئے ہوں محکم زرہ
وَھِیَ وِلاءُ أَھْلِ بَیْتِ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ مُحْتَجِزاًمِنْ کُلِّ قاصِدٍ لِی إلَی أَذِیَّةٍ بِجِدارٍ حَصِینٍ الْاِخْلاصِ فِی الاِعْتِرافِ بِحَقِّھِمْ،
اور وہ ہے محبت ان اہلبیتؑ کی جو تیرے نبی(ص) کا خاندان ہیں محفوظ ہوں ہراذیت پہنچانے والے سے محکم دیوار کے پیچھے کہ وہ ہے تہ دل سے ماننا ان کے حق کو
وَالتَّمَسُّکِ بِحَبْلِھِمْ جَمِیعاً، مُوقِناً أَنَّ الْحَقَّ لَھُمْ وَمَعَھُمْ وَمِنْھُمْ وَ فِیھِمْ وَبِھِمْ،
اور تعلق رکھنا ان کے مضبوط سلسلے سے اس یقین کے ساتھ کہ حق ان کا ہے، ان کے ساتھ ہے، ان سے ہے، ان میں ہے اور انہی کے ذریعے ہے
ٲُوَالِی مَنْ وَالَوْا، وَٲُعَادِی مَنْ عادَوْا، وَٲُجانِبُ مَنْ جانَبُوا،
اور ان سے محبت کرتا ہوں جو ان سے محبت کریں ان سے دشمنی رکھتا ہو ں جو ان سے دشمنی رکھیں اور ان سے دور ہوں جو ان سے دوری کریں
فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ، وَأَعِذْنِی اَللّٰھُمَّ بِھِمْ مِنْ شَرِّ کُلِّ مَا أَتَّقِیہِ، یَا عَظِیمُ
پس محمد(ص) اور ان کی آل (ع) پر رحمت فرما اور پناہ دے اے معبود بواسطہ انکے ہر چیز کے شر سے جس سے ڈرتا ہوں اے بزرگی والے
حَجَزْتُ الْاَعادِیَ عنِّی بِبَدِیعِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ، إنَّا جَعَلْنا مِنْ بَیْنِ أَیْدِیھِمْ سَدَّاً وَمِنْ خَلْفِھِمْ سَدَّاً فَأَغْشَیْناھُمْ فَھُمْ لاَیُبْصِرُونَ
دور کر دے دشمنوں کو مجھ سے بواسطہ آسمانوں اور زمین کی پرورش کے اور ہم نے ایک دیوار ان کے آگے اور ایک دیواران کے پیچھے بنا دی ہے پس ہم نے ڈھانپ دیا ان کو تو وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے
پھر تسبیح پر بوسہ دے اور دونوں آنکھوں پر ملے اور کہے:
اَللّٰھُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ بِحَقِّ ھذِہِ التُّرْبَةِ الْمُبَارَکَةِ، وَبِحَقِّ صَاحِبِھا، وَبِحَقِّ جَدِّہِ وَبِحَقِّ أَبِیہِ وَبِحَقِّ ٲُمِّہِ
اے معبود میں سوال کرتا ہوں تجھ سے بواسطہ اس برکت والی خاک کے بواسطہ اس قبر والے کے بواسطہ اسکے نانا اور بابا کے اور بواسطہ اسکی ماں
وَبِحَقِّ أَخِیہِ وَبِحَقِّ وُلْدِہِ الطَّاھِرِینَ اجْعَلْھا شِفاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ ، وَأَمَاناً مِنْ كُلِّ خَوْفٍ ، وَحِفْظاً مِنْ كُلِّ سُوءٍ.
اور بھائی کے اور اسکے پاک فرزندوں کے واسطے سے اس خاک کو ہردرد کی دوا ہر خطرے سے امان اور ہر تکلیف سے حفاظت کرنے والی بنا دے۔
اس کے بعد تسبیح کو اپنی پیشانی پر ملے چنانچہ اگر یہ عمل صبح کے وقت کرے تو اس دن شام تک اور اگر شام کو کرے تو صبح تک وہ شخص خدا کی پناہ و امن میں رہے گا۔
ایک روایت میں ہے کہ جس شخص کو کسی حاکم یا کسی اورشخص سے خوف لاحق ہو تو وہ جب گھر سے باہر جائے تو یہ عمل کرے پس وہ اس حاکم وغیرہ کے شروآزار سے محفوظ رہے گا۔
مولف کہتے ہیں کہ علماء کے ہاں مشہور یہ ہے کہ خاک کا کھانا اگرچہ جائز نہیں ہے لیکن امام حسینؑ کی قبر مطہر کی خاک کو حصول شفا کی خاطر چنے کے دانے کی مقدار میں کھایا جاسکتا ہے بلکہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مسور کے دانے جتنی ہی کھائے اور بہتر یہ ہے کہ خاک شفا کو منہ میں ڈال کر اوپر سے پانی پیئے اور یہ پڑھے:
اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ رِزْقاً وَاسِعاً ، وَعِلْماً نَافِعاً ، وَشِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ وسُقْمٍ.
اے معبود اسے بنا دے رزق واسع، علم نافع اور ہر بیماری سے شفا اور ہر دکھ کی دوری کا ذریعہ۔
علامہ مجلسی کا ارشاد ہے کہ احتیاط اسی میں ہے کہ خاک کربلا سے جو تسبیح اور سجدہ گاہ بنائی جائے اسے بیچا اور خریدا نہ جائے بلکہ بطور ہدیہ و سوغات دیا جائے لیکن پہلے سے شرط کیے بغیر اگر بعد میں ایک دوسرے کو راضی کر لیں یعنی کچھ رقم سے لین دین کر دیں تو بہت بہتر ہوگا جیسا کہ ایک معتبر حدیث میں امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوا ہے کہ جو شخص امام حسینؑ کی خاک قبر کو بیچے تو یہ فعل ایسا ہے جیسے اس نے حضرت کی ہڈی اور گوشت کی خرید و فروخت کی ہے۔ مولف کہتے ہیں میرے استاد محترم ثقۃ الاسلام محدث نوری نے اپنی کتاب دارالسلام میں تحریر فرمایا ہے کہ ایک دن میرے بھائیوں میں سے ایک والدہ مرحومہ کی خدمت میں حاضر ہوا والدہ مرحومہ نے دیکھا کہ اس نے سجدہ گاہ اپنی قبا کی اس جیب میں رکھی ہے جو پہلو کی طرف ہوتی ہے پس انہوں نے اسے یہ بے ادبی کرنے پر ڈانٹا کیونکہ اس کی جیب میں رکھنے سے سجدہ گاہ کبھی ران تلے دب کر ٹوٹ جاتی ہے تب میرے بھائی نے تسلیم کیا کہ بے شک آپ درست فرماتی ہیں کہ اب تک دو سجدہ گاہیں مجھ سے اسی طرح ٹوٹ چکی ہیں لہذا اب میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد ایسی جیب میں سجدہ گاہ نہیں رکھوں گا اس بات کو کئی دن ہو گئے تھے کہ میرے والد علامہ مرحوم نے خواب دیکھا جن کو اس واقعہ کی خبر نہ تھی کہ آقا و مولا امام حسینؑ ان کے پاس تشریف لائے اور کتاب خانے میں اکھٹے بیٹھے ہیں‘ آپ نے والد مرحوم سے فرمایا کہ اپنے بیٹوں کوبلائیں کہ میں ان سے بھی ملاقات کروں چنانچہ میرے والد نے ہم پانچ بھائیوں کو وہاں بلایا اور ہم سب حضرت کے سامنے آ کھڑے ہوئے‘ آپ کے پاس ملبوسات اور ایک خاص چیز تھی جو ہم میں سے ہر ایک کو باری باری بلا کر عنایت فرماتے تھے جب میرے اس مذکورہ بھائی کی باری آئی تو حضرت نے اس پر غصے کی نظر ڈالی اور میرے والد سے فرمایا کہ اس نے میری خاک قبر سے بنی ہوئی دو سجدہ گاہیں توڑی ہیں چنانچہ آپ نے وہ خاص چیز اسکی طرف پھینک دی اور دوسروں کی طرح اپنے پاس بلا کر عنایت نہیں فرمائی اور جہاں تک مجھے یاد ہے وہ شال بننے کی کنگھی تھی۔ اس وقت میرے والد کی آنکھ کھل گئی اور انہوں نے اپنا یہ خواب میری والدہ مرحومہ کو سنایا تو انہوں نے سجدہ گاہ کے بارے میں میرے اس بھائی سے اپنی گفتگو کا قصہ بیان کیا تو وہ اس خواب کی صداقت پر متعجب ہو کر رہ گئے۔